سبزی منڈی میں گندگی کاڈھیر،بیماریوںنے پر نکال لئے
یوں تو ہم صفائی کو نصف ایمان کا درجہ قرار دیتے ہیں اور فیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے شہر بھر میں صفائی نصف ایمان کے مختلف مقامات پر بورڈ بھی آویزاں کئے ہوئے ہیں، طبی نکتہ نگاہ سے جہاں بھی انسانی خوراک کی اشیاءتیار کی جاتی ہیں یا فروخت کی جاتی ہیں وہاں بھی صفائی کو اولیت قرار دیاجاتا ہے، پنجاب میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بعد اس طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے مختلف ہوٹلوں، ریسٹورنٹ اور دودھ فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈا¶ن کی خبریں اخبارات میں بڑے اہتمام سے شائع کرائی جاتی ہیں اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیمیں اپنی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے میں بھی مصروف ہےں۔پھربھی نہیں علم کہ پنجاب میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر کیوں ہیں!۔یہاں یہ سوال بھی موجود ہے کہ فوڈاتھارٹی کے دائرہ اختیار میں کون کون آتا ہے جبکہ طبی نکتہ نگاہ سے انسانی خوراک کا جزو بننے والی تمام اشیاءپر نگاہ رکھنا پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری ہے۔ اتھارٹی کے ڈائریکٹر نورالامین مینگل سے ہمارا سوال ہے کہ اگر کوئی ریسٹورنٹ یا دودھ سپلائی کرنے والے دودھ فروش ان کے دائرہ اختیار میں ہیں اور گوشت فروخت کرنے والے بھی ان کی گرفت میں آ سکتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی خوراک کی اشیا©ءمیں سبزیاں اور پھل بھی آتے ہیں۔ جدید طبی تحقیق کی روشنی میں سبزیوں اور پھلوں کا ذخیرہ اگر کسی آلودہ ماحول میں رکھا جائے تو ان میں ایسے وائرس داخل ہو سکتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں۔ یورپی ممالک میں اس طرف بڑی توجہ دی جاتی ہے اور طبی سائنس کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے یورپ کی سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں خریدوفروخت کی اجازت دی جاتی ہے۔جس طرح ہسپتالوں میں صفا©ئی کا نظام قائم کیا جاتا ہے ویسا نظام وہاں کی سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں قائم ہے بلکہ ان منڈیوں میں جو سبزیاں اور پھل آتے جاتے ہیں انہیں ایک خاص طبی سائنس کے اصولوں سے گزار کر فروخت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارا نظام ہی الٹ چل رہا ہے اور ہماری سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں صفا©ئی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ سبزیاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں کے قریب پڑی ہوتی ہیں اور منڈی میں کیچڑ کی ایک موٹی چادر بچھی ہوتی ہے۔ بیوپاری بھی اس کیچ©ڑ میں چل رہے ہوتے ہیں اور اسے سڑک کہا جاتا ہے اس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ بارش ہو یا نہ ہو ہماری سبزی منڈیوں میں بارشی موسم ہی نظر آتا ہے بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ سبزی منڈیوں کی طرف جو راستے جاتے ہیں وہ بھی گندگی اور غلاظت سے بھرے ہوتے ہیں۔ گویا ہم جو سبزیاں خریدتے ہیں ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ ان سبزیوں میں کون کون سے بیکٹیریا حملہ آور ہو چکے ہیں۔ فیصل آباد میں سبزی منڈی ہو یا مچھلی مارکیٹ ہو وہاں گندگی اور غلاظت لازمی ہوتی ہے۔ جب فیصل آباد کے محلہ پرتاب نگر میں سبزی منڈی تھی تو راہ پر سبزیاں دھوئی جاتیں۔ اب سبزی منڈی جو کہ مرکزی سبزی اور پھل منڈی قرار دی جاتی ہے وہ سدھار میں ہے جبکہ ایک سبزی منڈی غلام محمد آباد میں بھی قائم ہے۔ ان دونوں منڈیوں کو مارکیٹ کمیٹی کنٹرول کرتی ہے یا پھر آڑھتیوں کی جو یونین قائم ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سبزی منڈی میں ماحولیاتی آلودگی نہ پیدا ہونے دے بلکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا جو محکمہ قائم ہے اس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منڈیوں میں ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لے۔ ایک قصاب کو مح©ض اس بناءپر قابل تعزیر قرار دے کر جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے کہ اس نے بکرے کی جگہ بکری کیوں ذبح کی تو سبزی منڈی کے آڑھتیوں کو کیوں نہیں پکڑا جا سکتا کہ وہ اپنی منڈی میں جو سبزیاں فروخت کر رہے ہیں وہ سبزیاں ماحولیاتی آلودگی کے باعث جراثیم کی لیبارٹریاں ہیں جو گھر گھر جراثیم پھیلا رہے ہیں۔ فیصل آباد کی سبزی منڈی سدھار کی حالت زار اور عدم صفائی کے حوالہ سے ایک رپورٹ منظرعام پر آئی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ فیصل آباد کی مرکزی سبزی اور فروٹ منڈی سدھار جھنگ روڈ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہی ڈھیر ہر طرف نظر آتے ہیں اور عرصہ دراز سے سٹریٹ لائٹس کا کوئی اہتمام نہیں اور جو لیٹرین وغیرہ قائم ہیں ان کی حالت بھی قابل رحم ہے۔سبزی منڈی میں تمام کاروبار رات چار بجے کے بعد سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور ہزاروں افراد یومیہ اس منڈی کا رخ کرتے ہیں بلکہ سیکورٹی کا بھی کوئی خاطرخواہ نظام قائم نہیں ہے۔ متعدد بار سبزی منڈی جانے والے بیوپاری جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں۔ انجمن تاجران اور سبزی فروش پھل فروشی کا کاروبار کرنے والوں نے ڈویژنل کمشنر مومن آغا اور ڈپٹی کمشنر سلمان غنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک بار سبزی منڈی سدھار کا دورہ کریں تو انہیںفیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ، میونسپل کارپوریشن اور دیگر اداروں کی کارکردگی آئینہ کی طرح نظر آئے گی ۔ لوگ اس تعفن زدہ ماحول میں ہی خریدوفروخت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مختلف نوعیت کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، جراثیم سے آلودہ سبزیاں اور پھل قابل فروخت نہیں ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی کس مرض کی دعا ہے۔ سبزی منڈی میں صحت منڈی کا ماحول رکھنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر اسی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سبزیاں بھی فوڈ میں شامل ہیں۔ لہٰذا پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نورالامین مینگل کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سبزی منڈی کی انتظامیہ کو وارننگ دیں کہ وہ فوری طور پر صفائی کا اہتمام کریں اور میونسپل کارپوریشن کے میئر جو اپنے بیان کی ابتدا ہی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے ویژن کے مطابق سے شروع کرتے ہیں کیا میاں محمد شہبازشریف کے ویژن میں صفائی نصف ایمان شامل نہیں۔ لہٰذا عوام کو جراثیم سے پاک سبزیوں کی فراہمی کے لئے ضروری ہے کہ سدھار کی سبزی منڈی میں صفائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور فیصل آباد ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے گندگی اور غلاظت کے خاتمہ کی طرف توجہ کرے۔