بھارت سے تعلقات بڑھانے اور پاکستان کی ”دفاعی امداد“ کیلئے امریکی ایوان نمائندگان کیطرف سے ناروا شرائط کا بل منظور
امریکی ایوان نمائندگان نے بھارت سے دفاعی تعا ون بڑھانے اور پاکستان کی امداد پر سخت شرائط عائد کرنے کا بل منظور کرلیا۔ ایوان نمائندگان نے 621.5 ارب ڈالر کا دفاعی پالیسی بل منظور کیا جس میں پاکستان کو دی جانے والی امداد پر سخت شرائط عائد کردی گئیں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کو بھارت سے دفاعی تعاون بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایوان زیریں میں قومی دفاعی پالیسی بل 2018ء پیش کیا گیا جس کے حق میں 344 اور مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے یہ بل یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہوگا۔ اس بل میں پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد پر سخت شرائط عائد کردی گئی ہیں۔ نئی شرائط کے تحت پاکستان کو امداد کے حصول کیلئے اپنے ہاں موجود نیٹو سپلائی راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ انسداد دہشت گردی آپریشنز میں مدد کیلئے واضح اقدامات کرنے ہوں گے۔ سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو روکنا ہوگا اور بارودی سرنگوں (آئی ای ڈیز)کے خطرے سے نمٹنے کیلئے مناسب کارروائی کرنا ہوگی۔ بل کے تحت یکم اکتوبر 2017ء سے 31 دسمبر 2018ء تک پاکستان کیلئے مختص کردہ 40 کروڑ ڈالر امداد اس وقت تک نہیں دی جائیگی جب تک امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق نہ کردیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل فوجی آپریشن کر رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے سے روک رہا ہے اور پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے افغان حکومت سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔ دفاعی پالیسی بل اب سینٹ میں پیش کیا جائیگا جہاں سے منظوری کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسکی حتمی منظوری دیں گے جس کے بعد یہ قانون بن جائیگا۔
امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس جنگ میں جہاں پاکستان کی معیشت ڈوبی وہیں 6 ہزار سکیورٹی اہلکاروں سمیت ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی اس جنگ کی نذر ہو گئے۔ اتنی ہلاکتیں تو اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اس کے پچاس کے قریب اتحادیوں کی بھی نہیں ہوئیں جتنی پاکستان کی شہادتیں ہوچکی ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں بھی امریکہ کا ساتھ دینے کے باعث ہی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا معاون ہی نہیں محسن بھی ہے۔ پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو اسے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے محض خواب ہی دیکھنے پر اکتفا کرنا پڑتا۔ پاکستان کے افغان وار ٹو میں بھی اہم کردار کے باوجود امریکہ کا مکمل جھکاﺅ بھارت کی جانب ہے جو امریکہ کی طوطا چشمی کا اظہار ہے۔
امریکہ جس کو دفاعی امداد کہتا ہے وہ کوئی امداد یا خیرات نہیں پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی راہداری ، تنصیبات کے استعمال اور سہولیات کا غیر طے شدہ معاوضہ ہے۔ پاکستان کی متعلقہ وزارتوں اور حکام کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انفراسٹرکچر کی تباہی کی مد میں پاکستان کو 108 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ امریکہ کی طرف سے فراہم کی گئی رقم جسے امریکہ امداد کہتا ہے اس کی کل مالیت 16 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں، یہ رقم بھی قسطوں میں ادا کی گئی جو نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں اور 60 ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قیمت اور مداوہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔
امریکہ کے بھارت کی طرف جھکاﺅ کی سمجھ آتی ہے۔ چین کی تیز رفتار معاشی ترقی اور بڑھتی ہوئی دفاعی قوت کے پیش نظر امریکہ بھارت کو چین کے مقابل لانے اور خطے کا تھانیدار بنانے کے لئے کوشاں ہے مگر یہ سب پاکستان کی قیمت پر کرنا افسوسناک اور اس ملک کو نظر انداز کرنا شرمناک بھی ہے جسے امریکہ اپنا فرنٹ لائن اتحادی قراردیتا ہے۔ دفاعی امداد کے لئے اب جو شرائط عائد کی جا رہی ہیں ان میں سے کچھ کا پورا کیا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس میں ایک تو سرحد پار حملوں کو روکنے کے حوالے سے ہے۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں کبھی دراندازی نہیں کی گئی۔ سرحد کے آر پار دہشت گرد اگر جاتے آتے ہیں تو اس میں افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ بھارت افغان سرزمین پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کے لئے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان سے دہشتگرد اگر افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں پاکستان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ 27 سو کلومیٹر طویل بارڈر ناپسندیدہ عناصر کی آمدورفت کیلئے کھلا ہے۔ اس بارڈر پر نقل و حمل کو کنٹرول کرنا پاکستان کے کنٹرول میں ہوتا تو آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ہی ہزاروں دہشتگرد افغانستان فرار نہ ہو جاتے۔ جن کی افغانستان میں حکومتی سطح پر پذیرائی ہوتی ہے۔ اور انہیں وہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ مولوی فضل اللہ اور اس جیسے دہشتگرد پاکستان میں دہشتگردی کیلئے سازشوں کے تانے بانے بُنتے اور وہاں سے دہشتگردوں کو دہشتگردی کےلئے بھجواتے ہیں۔ پاکستان نے دہشتگردوں کی آمدورفت روکنے کیلئے بارڈر مینجمنٹ شروع کی تو افغانستان بھارت کے ایما پر اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے کیونکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف مداخلت کے راستے مسدود ہوتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ بھی پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور دیوار کی تعمیر کے پاکستانی منصوبے پر خاموش ہے حالانکہ سرحد پار دہشتگردی روکنے کا اس سے بہتر کوئی منصوبہ نہیں ہو سکتا مگر امریکہ باڑ اور دیوار کے مجوزہ منصوبے کی مخالفت پر افغانستان کو شٹ اپ کال نہیں دے رہا۔
40 کروڑ روپے کی امداد کے لئے امریکی وزیر دفاع کو یہ سرٹیفکیٹ بھی دینا ہو گاکہ پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے پاکستان افغان حکومت سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔ افغان حکمران جو بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں وہ کسی صورت عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے پاکستان کے تعاون کا اعتراف نہیں کریں گے۔ بھارت کے ایما ہی پر تو افغان انتظامیہ افغانستان کے اندر ہونے والی دہشتگرد کارروائیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتی ہے۔ افغانستان اور بھارت تو پاکستان کے خلاف کھل کر زہر اگلتے اور ہرزہ سرائی کرتے ہیں ان کو امریکہ کی اب تائید اور حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے تو امریکی وزیر دفاع کی طرف سے پاکستان کی ”امداد“ کے لئے تصدیق کا کتنے فیصد امکان رہ جاتا ہے؟
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کراچی میں نیول اکیڈمی میں پاسنگ آ¶ٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ایجنسیاں پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ ”را“ افغانستان سے اپریٹ کی جا رہی ہے۔ جو بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ را پاکستان میں دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے۔ یہ بات کئی بار دہرائی گئی اور عالمی برادری کے سامنے ثبوتوں کے ساتھ لائی گئی ۔دہشت گرد جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری جنرل زبیر کے بیان کی بہت بڑی سند ہے۔ بھارت کے پاکستان میں مداخلت کے ناقابل تردید ثبوتوں کو اقوام متحدہ نے کوئی اہمیت دی نہ امریکہ نے کوئی نوٹس لیا۔ عالمی برادری کے لئے ایمنسٹی کی اس حوالے سے رپورٹ فکر انگیز ہونی چاہئے۔ جس کے بعد بھارت اور افغانستان کے دہشتگرد ریاستیں ہونے کے مزید ثبوتوں کی ضرورت نہیں رہی۔
یو این او کی نمائندہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کے شہرقندھار میں بھارت کے قونصل خانے جس میں اسرائیلی، بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ٹاپ ایجنٹ دہشتگردوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان بھیج کر دہشتگردی کے واقعات کرواتے ہیں جس سے اب تک سینکڑوں معصوم لوگ بم دھماکوں، خودکش حملوںمیں اپنی زندگی گنوا بیٹھے جبکہ پولیس فورس اور پاک فوج کے جوان بھی شہید ہوئے۔ بھارت نے افغانستان کی مدد سے 65 قونصل خانو ں میں دہشتگردوں کو خفیہ ٹریننگ دے کر مختلف تنظیموں کی شکل میں پاکستان کے اندر چھوڑ رکھے ہیں جبکہ تمام نیٹ ورکس کے سربراہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت کی کمر تو ٹوٹ گئی مگر دہشتگردی کا نیٹ ورک تاحال ختم نہ ہوسکا جس کے باعث بھارت اسرائیل ، افغانستان کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کے منصوبوں پر گامزن ہیں۔ اس رپورٹ سے بھارت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا۔اب تک افغانستان میں بھارت کے 18 قونصل خانوں کے بروئے عمل ہونے کی رپورٹس تو تھیں مگر اب ایمنسٹی کی طرف سے ان کی تعداد 65 بتائی گئی ہے اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کی تفصیلات بھی سامنے آ چکی ہیں۔ کیا بھارت کو نکیل ڈالے بغیر خطے میں امن لوٹ سکتا ہے؟۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مطالبہ پاکستان کے دل کی آواز ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کو بھارت کی بیخ کنی کے لئے متحرک ہونا چاہئے۔ پاکستان ہی ان عالمی اداروں کو نوٹس لینے پر آمادہ کر سکتا ہے۔
امریکہ جس طرح بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے، اس کے شانہ بشانہ ہے اور روایتی اسلحہ کے ساتھ سول نیو کلیئر توانائی کے معاہدے کر رہا ہے، پاکستان کو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے مقابلے چین اور روس کے ساتھ مل کر ایک اقتصادی و دفاعی بلاک بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ چین اور روس کو ایسے بلاک کی ضرورت کا ادراک بھی ہے پاکستان کے لئے اس اہمیت اب دو چند ہوچکی ہے۔