آج جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد پہلے اور شاید آخری مرحلے کا آغاز ہونے جا رہا ہے، حالات اشارہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ ن لیگ کے درخت سے زردپتے جھڑنے والے ہیں۔ تن تنہا وزیر اعظم اس تیز آندھی میں کھڑے ہونے کی حقیر سی کوشش میں مصروف ہیں مگر یہ کوشش کس کام کی جب ان کے وزراءاور مشیر ہی تتر بتر ہوتے نظر آرہے ہیں جو انہیں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے القابات دینے والوں سے امید لگانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ کہ شاید ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کر دے، نواز شریف کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عدالت عظمیٰ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ اور چلیں مان لیا کہ اگر سپریم کورٹ یہ کیس نیب کو فارورڈ کر دیتی ہے تب بھی عوام اس کیس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ میرے خیال میں تقریباََ 70 فیصد سیاستدان نیب انکوائریوں، تحقیقات اور ریفرنسز کا سامنا کرچکے ہیں۔ایسے میں ان میں ”ایک“ کا اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اس لیے میرے خیال میں عدالت عظمیٰ پہلی نظر میں 62، 63 کے عمل کو آگے بڑھائے کیوں کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ وقت آن ٹھہرا ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم جو ملک کے سب سے بڑے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف نے قوم اور اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جو جھوٹ بولے اُس کا انکشاف جے آئی ٹی کی رپورٹوں سے ہوتا ہے۔ جس حوالے سے فی الحال پی ایم ایل (ن) کو جے آئی ٹی کے مواد پر مربوط اور مدلل تنقید کرتے نہیں سنا۔ لیکن وہ باربار یہی کہہ رہی ہے کہ جے آئی ٹی اپنی تشکیل کے اعتبار سے متعصب تھی.... اس کا اختیار کردہ طریق ِ کار غیر منصفانہ تھا (اس نے قطری کا انٹرویو نہیں لیا) اور اس نے شریفوں کا منفی تاثر اجاگر کرنے کے حربے اپنائے.... اور یہ بھی کہ صرف نوازشریف کو احتساب کا ہدف بنانے والا عمل متعصبانہ کارروائی ہے جس کا مقصد منتخب شدہ وزیر ِاعظم اور جمہوریت کو ایک برائی بنا کرپیش کرنا ہے۔ یا یہ بھی کہ نواز شریف کے خلاف بدعنوانی یا اپنے اختیار کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام نہیں، چنانچہ اُنہیں مستعفی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹس متنازع ہیں اور یہ سب باتیں بھی ایک طرف مگر میاں نواز شریف کے جھوٹوں کو آشکار کرنا کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔ اگر ملک کا چیف ایگزیکٹو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے جھوٹ بول سکتا ہے تو وہ صادق اور امین کیسے ہوسکتا ہے۔ چلیں باقی معاملات ہم ڈسکس نہیں کرتے مگر آپ یہ دیکھیں کہ پوری قوم سے بھی جھوٹ بولا گیا کہ نیلس اور نیکسول کی ملکیت مریم نواز کی نہیں ہے۔ لیکن یہ مریم نواز ہی کی ہے جس کی تصدیق لندن کی ایک فرانزک لیب اور وہاںکے اداروں نے کر دی ہے۔ آپ گلف سٹیل کے حوالے سے دیکھ لیں جسے دبئی کی وزارت انصاف نے مہر ثبت کر دی ہے، کہ یہ ڈیل جھوٹی ہے اور کہیں یہ exist ہی نہیں کرتی۔ میرے نزدیک تو یہ دو بنیادی چیزیں وزیر اعظم اور ان کا خاندان اس جرم کا مرتکب ہوا یا نہیں ہوا۔
اب وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے لیے یہ ایک الگ مسئلہ کہ کہیں سپریم کورٹ وزیراعظم کو نااہل قرار نہ دے دے اور اگر ن لیگی خاندان سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرلے اور پوری فیملی سمیت نااہل ہو جائیں تو پھردنیا بھر میں اس فیملی کے جہاں بھی اثاثے موجود ہیں وہ منجمد ہوجائیں گے۔ خاص طور پر برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے قانون کے تحت برطانوی حکومت انہیں اپنے تحویل میں لے لے گی۔ پاکستان میں نیب یا ایف آئی اے کے مقدمات اُن کا مقدر بن جائیں گے اور اگر اِن اداروں نے سپریم کورٹ کے زیر نگرانی جے آئی ٹی کی سفارشات کے مطابق کام کیا تو نہ صرف وزیراعظم گرفتار ہوسکتے ہیں بلکہ پاکستان میں موجود اُن کے تمام اثاثے بھی محفوظ نہیں۔ یعنی وزیر اعظم نواز شریف کے پاس مقابلہ کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہاایک راستہ جو انہیں کئی ہمدردوں نے دکھایا ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں اور کسی ایسے شخص کو وزیراعظم بنا دیں جو ان کا بھرپور ساتھ دے اورمقدمات سے انہیں باعزت بری کراسکے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص کون ہو سکتا ہے؟ یہ وزیر اعظم کو خود بھی کنفرم نہیں!
لیکن یہ انہیں کنفرم ضرور ہے کہ اس مقدمے میں ان کے وکلاءنے بہت بری طرح لڑا .... کیوں کہ اُن کے وکلاءکی ٹیم نے سپریم کورٹ کی Juridiction کو کبھی چیلنج نہیں کیا اور نہ ہی جے آئی ٹی کی تشکیل کو کبھی چیلنج نہیں کیا.... اس کے علاوہ اور بھی بہت سے بلنڈر ہوئے لیکن یہ وہ تمام چیزیں ہیں جس پر آج یہ شور مچا رہے ہیں جو چور مچائے شور کے مترادف ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ خیر منی لانڈرنگ ہوئی یا نہیں ہوئی؟ اس کا فیصلہ تو شاید نیب یا پاکستان کے دوسرے ادارے کریں گے لیکن یہ فیصلہ عدلیہ نے کرنا ہے کہ کیا ملک کے وزیر اعظم نے سب سے بڑی عدالت کے سامنے جھوٹ بولا یا نہیں اور وہ 62 اور 63 کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں ؟اگر پاکستان کی عدالت عظمیٰ 62 اور 63 پر عمل شروع کر دیتی ہے تو میرا نہیں خیال ہے کہ آئین میں کسی تبدیلی یا منصفانہ انتخابات کے لیے کسی اور راستے کا انتخاب کرنا ہوگا، یہی ایک قانون ہوگا جو پاکستان میں مکمل صفائی کے عمل کا آغاز کر دے گا اور 2018ءکے انتخاب میں شاید بہت سے لوگ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ اور پاکستان حق اور سچ کی آواز کے ساتھ آگے بڑھتا نظر آئے گا۔
کیوں کہ اس پاکستان میں کرپٹ خاندان نہیں ہوں گے اور نہ ہی ایسے خاندان ہو ں گے جن کے خاندان کی کرپشن کے نام پر تذلیل ہو رہی ہو اور انہیں کوئی فرق نہ پڑتا دکھائی دے رہا ہو۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ کانپ اٹھتے ہوں، انہیں دکھ ہوتا ہو۔لیکن افسوس انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر یہی مکافات ِ عمل ہے تو موت اس سزا کے مقابلہ پر بہت ہی معمولی سزا ہے۔ بچپن سے سنتے آئے کہ انسان جو بیجتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ شاید یہ بدنصیب گھرانہ وہ کچھ کاٹ رہا ہے جو انہوں نے بیجا بھی نہ ہو۔ خاص طور پر حسن، حسین اور مریم کہ اب نہ سہی جب یہ وارداتیں ہوئیں تب تو معصوم بچے ہی تھے اور اگر ہاتھ صاف، دامن پاک ہے تب بھی یہ سب بچے ہی تھے جب دولت اثاثے ضربیں کھا رہے تھے بلکہ خرگوشوں کی شرح افزائش کو بھی شرما رہے تھے، پھرمن گھڑت کہانیاں گھڑی گئیں اور یہ خود اُن میں پھنس گئے۔
حقیقت میں من گھڑت کہانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کا کوئی سرپیر نہیں ہوتا۔ شریفوں کی پیش کردہ پہلی کہانی کے کئی ایک پہلو تھے اور تھیوری کے اعتبار سے ہر ایک اپنی جگہ پر سچ دکھائی دیتا تھا۔ لیکن جب اُنہیں باہم ملایا گیا تو وہ ایک ناقابل ِ یقین کہانی کی شکل اختیار کرگئے۔ تراشی گئی دیومالائی کہانی یہ تھی کہ لندن فلیٹس کی ملکیت کی وضاحت کے لئے شریفوںکو کسی منی ٹریل ، فلیٹس کی ٹرانسفر یا دستاویز کی ضرورت نہیں۔ اس مقصد کے لئے اہل ِخانہ کے بیانات اور قطری مہربان کی تصدیق ہی کافی ہوگی۔ لیکن تادم ِ تحریر اس کی کوئی قابل ِ اعتبار وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ اتنی بھاری رقم پاکستان سے باہر کس طرح منتقل کی گئی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہوائیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ کئی مقدمات جو دبا دیئے گئے تھے ان کے دوبارہ کھولنے کی سفارش بھی شریف فیملی کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں، ا±دھر انڈین میڈیا متفکر کہ نواز کی رخصتی سے کشمیر کی آزادی قریب آجائے گی، سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے مقتول بھی انصاف کے منتظر ہیں، گلف سٹیل سے متعلق سوال بھی جواب مانگتا ہے۔ وکی پیڈیا ”کیلبری فونٹ“ آرٹیکل میں ایڈیٹنگ بلاک کرچکا، جعلی دستاویزات جیسے خطرناک الزام کوبھی غلط ثابت کرنا ہوگا، جاوید کیانی بھی نواز شریف کے لئے جعلی اکاﺅنٹس کھولنے کا اعتراف کرچکا، قریبی ترین فیملی کے بیانات تضادات کا شکار ہیں، نیب میں نواز کے خلاف 9 میگا اسکینڈلز پر 18 سال سے تحقیقات جاری ہیں، نواز شریف سے JIT میں پوچھے گئے 14 سوالوں میں سے بیشتر کے جواب آئیں بائیں شائیںکرتے رہے۔ اس لیے اب اختلاف کرنا ن لیگ کے لیے مجبوری بن چکا ہے۔
بہرکیف آج وزیراعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے، ملک کے سب سے بااثر خاندان جس نے اپنے مفادات کے لیے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے اب اس کے تسلط سے تمام ادارے آزاد ہونے جارہے ہیں اور اس کا سہرا عمران خان کے سر ضرور جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی، اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججز کو قوم سلام پیش کرتی ہے اس کے نتائج دورس ہوں گے اور ہم عدلیہ سے توقع رکھیں گے کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ جن قوانین کا اطلاق میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر کیا جا رہا ہے ان سے عمران خان یا دوسرے افراد بچ سکیں گے۔ یہ قانون تمام کے لیے ایک ہونا چاہیے اور ہم اس توقع کے ساتھ نیا پاکستان نئے سفر کی طرف دیکھیں گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024