ظلم کی چکی اور موت کا رقص
مہاراجہ رنجیت سندھ کے ایک مصاحبِ خاص نے مہاراجہ کو امن و امان کے خراب ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے کہاکہ چوری ، ڈاکے، رہزنی اور لوٹ مارمیں اضافہ ہوگیا ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال سے عوام بہت پریشان ہیں ۔ ان تمام حالات پر قابو نہ پایا گیا تو عوام کا چین و سکون برباد ہوجائے گا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مصاحب خاص کی گفتگو سنی اور خاموش رہے کچھ عرصے بعد پھر مصاحبِ خاص نے شکوہ کیا کہ حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں ۔ مہاراجہ ان کا تدارک کیجئے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مصاحبِ خاص سے کہاکہ حالات کو خراب ہوئے کافی عرصہ بیت گیا ہے۔ اب تو عوام کو پریشان ہونے کی بجائے ان کا عادی ہوجانا چاہئے۔
یہ واقعہ ہمارے ملک پاکستان کے مزاج کے مطابق ہے 70 سال سے یہی کہا جارہا ہے کہ ملک کے حالات خراب ہیں کبھی مارشل لاء کی وجہ سے، کبھی سیاست دانوں کی سازشوں کی وجہ سے ،کبھی زلزلوں ، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی وجہ سے ۔1979ءسے تو افغانستان او ردہشت گردی کی وجہ سے غرض کہ تین نسلیں تو ”پاکستان بحران سے گزر رہا ہے“ کی گردان سنتے قبروں تک جاپہنچیں، چوتھی نسل دہشت گردی،لاقانونیت ، اقرباءپروری، قانون شکنی کے علاوہ ، لسانیت، فرقہ واریت،صوبائیت اور علاقائیت کے عذاب جھیل رہی ہے۔ صرف دو ہزار افراد بیس کروڑ عوام کی گردنوں پر مسلط ہیں۔ غربت ، افلاس، بے روزگاری، جہالت ہماری قوم کا مقدر بن چکا ہے۔ طاقت ور اشرافیہ جسے حالیہ سپریم کورٹ نے گاڈ فادر سے تشبیہہ دی ہے۔ ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں یہ ملک انہی کی خواہش کے مطابق چل رہا ہے۔ یہ صرف الیکشن کا ڈرامہ رچا کر عوامی حقوق پر قبضہ کرتے رہتے ہیں آخر اس بھونڈی بھیانک جمہوریت کے نام پر کب تک شب خون مارتے رہیںگے۔
ہمارے ملک کی سیاست بھی عجیب و غریب ہے جب مارشل لاءلگتا ہے تو جمہوریت کا رونا رویا جاتا ہے اور جب جمہوریتءآتی ہے تو یہی سیاست دنا او ردانشور ماشل لاءکی دہائی دینے لگتے ہیں مارشل لائی حکومت میں سیاست دانوں کا یہی طبقہ پھر وسائل پر قابض ہوکر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھتا ہے جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ صرف ملک و قوم کے مفاد کے نام پر ان مفاد پرستوں کی ادھر سے ا دھر اور ادھر سے ادھر آنیا جانیا دیکھتے رہتے ہیں۔
جمعتہ الوداع کو جب کہ ایک ہی دن پارا چنار، کوئٹہ سے کراچی تک دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر خون کی ہولی کھیلی پارا چنارمیں عید کی شاپنگ کرتے ہوئے بچوں اور عورتوں کو خود کش حملوںکا نشانہ بنایا گیا۔ جس میں 80لوگ شہید ہوگئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کوئٹہ میں پولیس ہیڈ آفس کو نشانہ بنایا گیا۔ کار بم دھماکے میں 15 شہید کردیئے گئے۔ کراچی میں نماز جمعہ میں آنے والے نمازیوں کو تحفظ فراہم کرنے والے چار پولیس جو انوں کو ایک ہوٹل میں جو روزہ افطار کرنے کے منتظر تھے ٹارگٹ کرکے شہید کردیا گیا۔ ان تمام واقعات کے باوجود وزیراعظم سعودی عرب سے وطن واپس آ کر پاارا چنارجانے کے بجائے لندن عید کرنے چلے گئے جب کہ ناروے اور کنیڈا کے وزرائے اعظم ملک کے مسلمان شہریوں کے ساتھ ان کی مساجد میں جاکر عید مناتے ہیں۔
عید سے ایک دن پہلے ضلع بہاولپور کے ایک قصبے احمد پور شرقیہ میں خوفناک حادثے کے نتیجے میں اب تک 205 افراد جل کر مر گئے یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ آگ سے جو لوگ30 فیصد بھی جل جائیں تو ان کی جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب کہ اس افسوس ناک واقعے میں لوگ 80 فیصد تک جل چکے ہیں ان کو بچانا کیسے ممکن ہوگا۔ ہمارے ملک میں آئل ٹینکر کا الٹنا اور انہیں مال غنیمت سمجھ کر لوٹنا ایک روایت اور عادت بن چکی ہے۔ کچھ برس پہلے پنجاب کے شہرجھنگ کے علاقے اڈا روڈ سلطان میںبھی آئل ٹینکر کا ایک حادثہ ہوا تھا۔ جس میں لوگ پیٹرول لوٹنے کے آئے اور 65 افراد جل کر کوئلہ بن گئے۔ 11 جنوری 2015 کو کراچی میں غلط سمت سے آنے والا ٹینکر کوچ سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں 62 افراد جل کر ہلاک ہوگئے۔ بھڑکتے ہوئے آئل ٹینکروں نے آج تک سینکڑوں افرد کو نگل لیا ہے لیکن سابقہ اور موجو دہ حکومتوں نے نہ ان واقعات کو کنٹرول کربنے کی حکمت عملی بنائی اور نہ ہی اسپتالوں میں برن وارڈ بنا۔
اور اب آخری ادارہ سپریم کورٹ ہی باقی رہ جاتا ہے کہ جس سے التجا کی جائے کہ سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکومتوں کے خلاف ایک جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں عوام کو آگ کا ایندھن بننے سے بچایا جائے جے آئی ٹی ان سوالوں کی تحقیقات کرے۔
٭ ناقص آئل ٹینکروں کے فٹنس کے سرٹیفکیٹ کس نے جاری کئے؟
٭ حکومتوں نے برن وارڈکیوں نہیں بنائے؟
٭تحقیقات حکومتی اداروں کے خلاف ہونی چاہئے یا مرنے والے ، زخمی افراد یاان کے لواحقین کے خلاف؟
٭برن یونٹ اگر کہیں ہیں تو ان کی تعداد کتنی ہے ان میں انفیکشن کنٹرول کرنے والے کتنے بسترہیں ؟
٭زخمی او رجلے ہوئے لوگوں کے لئے امریکی ریاست اوبالو سے جلد کا عطیہ کیوں لینا پڑا؟
پاکستان کا پانچواں ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ملک کے عوام کو ظلم کی چکی اور موت کے رقص سے کب نجات دلائی جائے گی۔