نیچے بیان کی گئی کہانی سراسر فرضی ہے !!
ایک گھر تھا بہت غریب ۔ کبھی کبھی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر بھی کھانا پڑتی ۔ گھر کے بڑے جاہل ۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اتنا بھرا پرا گھر انہیں مل کیسے گیا ۔ اور اگر مل ہی گیا ہے تو ان سب کی ذمہ داریاں کیسے نبھانی ہیں ۔ جب گھر ملا تھا تو اس میں مفید باغات تھے ۔ اسکے پھل سبزیاں مسقبل کا سوچے بغیر کھاتے رہے۔ اس کی صحت اور نشوونما کی طرف کوئی دھیان نہ دیا ۔ باغات کے درختوں کو دیمک نے اندر سے کھوکھلا کر نا شروع کر دیا ۔ سبزیوں کی بیلیں دیواروں پر چڑھی ہوئی ہیں مگر ان پر بھی کیڑے لٹکے ہوئے ہیں ۔پانی کا حسین تالاب گندا چھپڑ بن چکا ہے ۔ پہلے پہلے لوگ پانی میں سوکھی روٹی بھگو سکتے تھے پھر نوبت یہ آئی کہ صاف پانی اور سوکھی روٹی کا ملنا بھی دشوار ہوتا گیا ۔ایک دن پھر یہ دیکھا گیا کہ اس گھر کے بچے کوڑے سے روٹی کے ٹکڑے اٹھا کر کھا رہے ہیں ۔ دیکھنے والوں کے دل کٹ گئے ۔ جو جانتے تھے کہ اس گھر کو لینے کے لئے بزرگوں نے جانیں اور عصمتیں بھی دیں ۔ سمجھدار لوگ اس بزرگ کی قبر پر جا کر رونے لگے اور اسے بتانے لگے کہ آپ کا خواب کوڑے کے ڈھیر میں دفن ہورہا ہے ۔ وہ بزرگ اب کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اس کے رہتے الفاظ کو کوئی عملی جامہ پہنانے والا نہیں رہا ہے ۔ کچھ خدا سے پوچھنے لگے ہر ذی روح کو رزق دینے کا تیرا وعدہ ہے،حتیٰ کہ پتھر میں رہنے والے کیڑے کو بھی ۔تو یہ سب کیا ہے ؟ ۔ ارد گرد کے دیکھنے والے کوئی اس گھر کے بنانے والے کو کوسنے لگے اور کوئی جوزیادہ سنکی تھے وہ دنیا بنانے والے کے انصاف کو چیلنج کرنے لگ گئے ۔ افراتفری اور سوچوں میں انتشار پھیلتا گیا ۔ پھر جب کوڑے کے ڈھیر میں سے بھی رزق محدود ہوگیا کیونکہ ڈھیر سے اٹھا کر کھانے والوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی ۔تو گھر کے کچھ مکین بچوں کی تڑپ اور بھوک دیکھ کر اتنے تنگ آگئے کہ انہوں نے بچوں کے گلوں میں "برائے فروخت" کی تختیاں لٹکائیں اور چوکوں میں کھڑے ہو کر بچے بیچنے شروع کر دیئے ۔ کچھ لوگوں کو پورا انسان فروخت کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو اعضاء بیچنے لگے ۔ جوزیادہ کم ہمت اور بزدل نکلے انہوں نے خود کشیاں کر نی شروع کر دیں ۔
گھر کی اوپر والی منزل پر چند خاندان ایسے بھی تھے جنہوں نے گھر کے وسائل پر شروع شروع میں ہی قبضہ کر لیا تھا اور انہیں اس حالت میں چالو رکھا تھا کہ ان کے ارد گرد کے لوگ بھوکے نہ مریں ۔ نچلی منزلوں میں رہنے والے لوگ جانتے تھے کہ ان وسائل پر ان کا بھی حق ہے مگر روز کی بھوک نے انہیں نڈھال کر دیا تھا ۔ وہ اپنا حق مانگنے کی نہ جرات رکھتے تھے اور نہ امید ۔ آہستہ آہستہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ یہ وسائل ان کے بھی تھے ۔
مگر جب بچے روز بکنے لگے ۔ عورتوں کے گاہک دروازے پیٹنے لگے ۔ خو د کشیاں بڑھ گئیں تو کچھ ابلتے ،گر م خون والے نوجوانوں نے اوپر والی منزل کے مکینوں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دیے ۔ اڑوس پڑوس ان کی نادار حالت دیکھ کر پہلے ہی افسردہ تھا ۔ ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ جب دبائو بڑھا تو اوپری منزل کے مکینوں نے اپنے خزانوں کے اوپر تو ایک آدھ سانپ چھوڑ دیے جو ان کے خزانوں کی حفاظت کرنے لگے اور نچلی منزل کے مکینوں کے منہ بند کرنے کے لئے ، بچوں کی سینے سے نکلتی ہڈیوں کی تصویریں ،عورتوں کی عصمت دری کی کہا نیاں اور مایوس خود کشی کرنے والے افراد کی ویڈیو فلمز لیں کشکول پکڑاا ور ارد گرد کے رئیس لوگوں سے مانگنے نکل کھڑے ہوئے ۔ بھوک سے نڈھال مردہ جسموں میںامید آئی کہ اب کھانے کو روٹی ملے گی اور دوسری ضرورتیں بجلی ،پانی اور صحت کی طرف بھی دھیان ہوگا ۔ دنیا کے امراء نے جب یہ سب غم اور بھوک دیکھی تو خوف ِ خدا اور انسانیت کے ناطے کسی نے خیرات اورکسی نے قرضے کی شکل میں کشکول بھر دیا ۔
حسب ِ روایت پیسہ ملتے ہی پہلے تو اوپری منزل والوں نے پیسہ آپس میں بانٹا۔ پھر گھر کے باہر جو تھڑا تھا اور ارد گرد کی سڑکیں پکی کروا دی گئیں، گیٹ بھی لوہے کا لگوا دیا گیا ۔ باہر ایک چوکیدار بھی دگنی تگنی تنخواہ پر کھڑا کر دیا گیا۔ ایک نئی گاڑی بھی آگئی ۔کمرے مضبوط کروا دئے گئے ۔ گھرمیں جدید ایجادات کی آمد ہوگئی ۔ جو گھر کا بجٹ دکھا یا گیا تو اس میں نمبرز یہ بتا رہے تھے کہ گھر میں خوشخالی بڑھ گئی ہے۔گھر میں گاڑی ، مہنگا ترین چوکیدار ،پکا تھڑا اور لوہے کا گیٹ یہ ثابت کرنے میں مگن رہے کہ گھر میں خوشخالی آچکی ہے مگر غریبوں نے انفرادی سے اجتماعی خود کشی کی طرف ترقی کا سفر طے کیا ۔اوپر والی کہانی کا نیچے والی کہانی سے کوئی تعلق نہیں ۔ کوئی بھی مماثلت محض اتفاقیہ ہوسکتی ہے ۔
یہ تو فرض کی کہانی ہے ۔فرضی نہیں ہے ۔ پاکستان میں لوگوں کو بالعموم ہر مہینے اور بالخصوص ماہ ِ رمضان میں بجلی کے نہ ہونے سے تڑپتے ہیں تو ایسے ہی ایک فضول خیال آتا ہے کہ ایک ایک پیسہ جو بجلی بننے پر لگنا چاہیئے اس سے سڑکیں بنا ئی جا رہی ہیں ۔ میڑو کے میگا پر وجیکٹس لگا ئے جا رہے ہیں ۔ جن طالبعلموں کو روٹی ، ذہنی سکون ،صحت اور گرمی میں پنکھا چاہیئے وہ دینے کی بجائے لیپ ٹاپ تھمائے جارہے ہیں۔ غریب بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ان کے لئے پنڈی اسلام آباد میں میڑو چلانے کے منصوبے بن رہے ہیں ۔ کراچی کے لوگ خوف سے مر رہے ہیں مگر ان کے لئے بھی میڑو چلانے کے ہی کے منصوبے بن رہے ہیں ۔
شہباز شریف اور نوز شریف کا الیکشن سے پہلے یہ کہنا کہ چونکہ ہمارا بجلی کے پروجیکٹس پر ہوم ورک مکمل ہے اور ہم اناڑی نہیں لہذا جونہی ہم اقتدار میں آئیں گے بجلی ہر خاص و عام کی باندی بن کر دروازے پر ہی کھڑی ہوگی ۔
اور بعد میں بات ہنسی میں ٹال کر چل پڑنا ۔ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنے طاقت وار اور بے پروا اور عوام کتنے بے بس اور مجبور ہیں ۔
بجلی کے پروجیکٹس ناکام ہیں مگر،دوسرے حکمرانوں کی دلچسپی کے پروجیکٹس دھڑا دھڑ کامیاب ہورہے ہیں ۔کیونکہ پاکستان کے 1%اشرفیہ کے گھر کبھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی ۔
14اگست2003کو کینڈا میں ایک دن کا بلیک آئوٹ ہوا تھا ۔آج اس بات کو گیارہ برس گزر گئے کبھی یہ واقعہ کبھی دوبارہ نہیں ہوا ۔
وجہ : جمہوریت جس کا مطلب اجتماعی عقل کو استعمال کرنا ، قابل اورمتعلقہ لوگوں کو عہدے دینا ، واقعے کی وجوہات کو کھوجنا پھر اس حساب سے تدبیر کرنا ۔ لوگوں کو انسان سمجھتے ہوئے لاپرواہی کرنے کی جرات نہ کرنا۔ پاکستان میں جمہوریت جو احتجاج سے خطرے میں پڑ جاتی ہے اس کا مطلب پتہ کیا ہے؟ "امیروں کے لئے غریبوں کا تحفہ "اسی لئے غریب لوگ مر رہے کچھ غربت اور بھوک سے سسک سسک کر ، کچھ بمبار دھماکوں میں اور کچھ چھتوں سے لٹک کر اور دوسری طرف ایک بھائی وزیر ِ اعلی ،ایک وزیر اعظم ،فنانس منسٹر بھی رشتہ دار اور بجلی و پانی کا وزیر بھی رشتہ دار ۔کچھ وازرتیں کچھ عہدے بھتیجوں بھانجوں کے لئے اور 117بلین پر بیٹی بغیرکسی عہدے کا تکلف کئے براجمان ہے ۔ بچے بجلی نہ ہونے سے شدید گرمی میں تڑپیں یا کھیلیں ۔۔ان کی بلا سے ۔
وزیر بجلی ناکامی کا بر ملا اعتراف کرنے کے بعد قوم سے معافی تو مانگ رہے ہیں مگر استعفی پھر بھی نہیں دے رہے ۔ یہی وزیر ِ دفاع بھی ہیں قوم تیار رہے کل کو وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں "سوری میں ملک کا دفاع نہیں کر سکا "۔شروع میں بیا ن کی گئی کہانی فرضی ہے پاکستان کی کہانی سے مماثلت اتفاقیہ ہے ۔کالم نگار کی خطا کو معاف کیا جائے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024