منیر احمد خلیلی
ہمارے ہاں وسیع پیمانے پر کرپشن، ضمیر و ایمان فروشی، مفاد پرستی، ابن الوقتی، بے اصولی کو جمہوریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جمہوریت کا یہ برانڈ فوجی آمروں اور منتخب حکومتوں میں برابر مقبول رہتا ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک اپنے گھر میںجمہوریت کی اس تعبیر کو قبول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن جب ان کا معاملہ ہمارے ساتھ پڑتا ہے توجمہوریت کو وہ اصول و مبادی کے پیمانوں سے ناپنے کے بجائے اپنے قومی مفادات کے مقیاس سے جانچتے تولتے ہیں ۔ہمارے بے اصول اور کرپٹ ، مفاد پرست اور ابن الوقت جرنیل اور سیاست دان ان پیمانوں سے ان کے لیے موزوں ثابت ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کا قومی غیرت اور ذاتی کردار کے لحاظ سے دیوالیہ پن امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کے لیے بہتر سودا کاری کی خاطربہت سازگار ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اخلاقی طور پر حد درجہ گرے ہوئے سیاسی طبقات کو حکومتوںکو اقتدار میں لانے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن وہ ممالک جہاں ابھی سال ڈیڑھ قبل طویل آمریتوں کے زخم خوردہ عوام نے وحشی جبر سے نجات کی کامیاب تحریکیں چلائیں اور تیس تیس چالیس چالیس سال سے مسلط ڈکٹیٹروں کا جُوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکا ہے و ہاں جمہوریت کا غالب تصورقومی غیرت، عزتِ نفس،شخصی آزادی اور عدل ِ اجتماعی جیسی اقدار سے عبارت ہے۔ان لوگوں نے ابھی ابھی قومی غیرت اور عزتِ نفس کی بازیافت اور ایک نئی باوقار زندگی کا آغاز کیاہے۔وہ غیرت و حمیت کے بارے میں بڑے حساس اور چوکنے ہیں۔ان کے سابق حکمرانوں نے بھی اپنے وطن کے وقار کو اسی طرح امریکی آقاﺅں کی خوشنودی اور سرپرستی کے عوض رہن رکھا ہوا تھا جس طرح پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر اور موجودہ منتخب بر سرِ اقتدار طبقے نے رکھا ہوا ہے۔ لیکن مصر، ٹیونس، لیبیا کے لوگ اب اس ذلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس کا ایک تازہ ثبوت تو ہلری کلنٹن کے مصر پہنچنے پر سامنے آیا۔ ایک مصری نے جو بینر اٹھایا ہوا تھا اس پر درج تھا: ’ہلری کے لیے پیغام، مصر کبھی پاکستان نہیں بنے گا۔© ‘ قومی سطح پریہ آزادی کا توانا اور ’بہارِعرب ‘سے پھوٹنے والاتازہ تصور ہے جس سے طویل عرصہ تک امریکی اثر اور دباﺅ میں رہنے کی وجہ سے عرب لوگ نا آشنا ہو گئے تھے۔
Pew Research Centerایک گلوبل تھنک ٹینک اور تحقیقی ادارہ ہے ۔ یہ Global Attitudes Project کے تحت ساری دنیا میں سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور اقتصادی حالات، رجحانات اور رویوں پر اپنے تحقیقی جائزے اور رپورٹیں پیش کرتا ہے۔اس کی تازہ ترین رپورٹ ابھی اسی ماہ شائع ہوئی ہے۔اس نے پاکستان، ترکی، مصر، اردن، ٹیونس اور لبنان کا ایک تحقیقی سروے کیا۔ تقریباً پچاس صفحات کی جامع اور تفصیلی رپورٹ ان چھ مسلمان ملکوں کے عوام کے فکر کے متعدد اہم گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔اس رپورٹ میں سیاست، معیشت اور مذہب کے حوالے سے ان ممالک کی عوامی سوچ اور رجحانات خاص طور پر لائقِ غور و فکر ہیں ۔ہمارے ہاں جمہوریت کے بارے میں فوجی آمریت اور منتخب جمہوری حکومت میں وہی فرق ہے جو ایک کفن چور اور اس کے بیٹوں کی کہانی میںبتایا گیا ہے۔ کفن چور کا جب آخری وقت آیا تو اس نے بیٹوں سے کہا کہ اپنے اس برے پیشے کی وجہ سے میں بڑا بدنام اور لوگوں کی لعنت ملامت کا ہدف رہاہوں، تم میرے بعد کوئی ایسا کام کرنا کہ لوگ مجھے اچھے الفاظ میں یاد کرنے لگیں۔باپ قبر کھود کر تازہ دفنائے ہوئے مُردے کا کفن کھینچ لیا کرتا تھا’سعادت مند‘ بیٹوں نے کفن کے ساتھ مردوں کو بھی قبروں سے باہر پھینکنا شروع کر دیا۔اب مردوں کی بے حُرمتی سے پریشان لوگ اس نئی صورتِ حال پر گفتگو کرتے تو یہی کہتے کہ کفن چور تو پہلے بھی تھا لیکن وہ ان ملعونوں سے بہتر تھا کہ صرف کفن ہی کھینچتا تھا، مردوں کی بے حرمتی نہیں کرتا تھا۔
مشرف کی آمریت کی تاریک رات ٹلی تو عوام یہ سمجھے کہ اب ’سُلطانیِ جمہور‘ کی فجر طلوع ہونے کوہے۔ 2008کے انتخابات کے نتیجے میںایک سیاسی حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تواگرچہ اس کا دامن این آر او کے مکروہ داغوں سے آلودہ تھا لیکن پھر بھی عوام پر امید تھے کہ یہ ان کے دکھوں کا مداوا کرے گی۔ اب جب کہ اس کی دستوری مدت تمام ہونے کو ہے، گزشتہ چار برسوں میں جمہوریت جو مصائب لائی انہوں نے لوگوں کو مشرف کا دورِآمریت بھلا دیا اور وہ جمہوریت کا ماتم کرنے لگے ہیں۔بر سرِ اقتدار آتے ہی اعلیٰ ترین حکومتی شخصیات اور ان کے اہالی موالی قومی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہو گئے۔اقربا پروری اور دوست نوازی ایک رِیت بن گئی۔حکومتی اتحادیوں کو بطورِ رشوت کرپشن کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ ملک کا سب سے بڑا شہر مقتل بن گیا جہاں کوئی دن نہیں جاتا جب دس بارہ جانیں نہ جاتی ہوں اور بے گناہوں کا خون نہ بہتا ہو۔بھتہ خوری اور ٹارگٹ کِلنگ وہاں کا لرزہ خیز اور ہولناک کلچر بن گیا۔بھتہ مافیا کے ساتھ ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا، اسلحہ مافیا نے بھی طاقت پکڑی۔چیف جسٹس نے برملا کہا کہ سندھ کی حکومت کے تینوں اتحادی اس شہر میں اپنا اپنا مالِ غنیمت محفوظ بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بغاوت کی کیفیت ہے۔ فاٹا میں فوج اپنے ہی لوگوں سے بر سرِ پیکار ہے۔بد امنی اپنی انتہا پر ہے۔دہشت گردی،بم دھماکے، ڈاکے اورچوریاںمعمول بن گئی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، اشیائے ضرورت کی قلت ، گیس اور بجلی کا بحران گمبھیر مسئلہ ہے۔ ترقیاتی منصوبے اور پیداواری سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔ یوںاس سیاسی حکومت نے کفن چور کے بیٹوں کی طرح آمریت کو نیک نام اور جمہوریت کو ایک نفرت انگیز چیز بنانے کا کام خوب کیا۔
مذکورہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان چھ میں سے پانچ مسلمان ملکوںکے ساٹھ فیصد سے زیادہ عوام جمہوریت چاہتے ہیں۔لیکن جمہوریت کے تلخ تجربے کی وجہ سے پاکستان کے تقریباً اتنی ہی تعداد میں (اٹھاون فیصد)لوگوں نے پچھلے سال بھی جمہوریت سے اپنی سخت بیزاری کا اظہار کیا تھا اور اس تازہ سروے میں بھی اسی نسبت سے وہ جمہوریت سے نالاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر عوام کو مستحکم معیشت اور مضبوط جمہوریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے تو پاکستانی عوام معاشی ترقی کو جمہوریت پر ترجیح دیتے ہیں۔البتہ معیشت کو ترجیحِ اول بنانے کے باوجود وہ اداروں کا استحکام اور حقوقِ انسانی کے احترام کے بھی شدت کے ساتھ خواہشمند ہیں۔ پاکستانیوں کی بیاسی فیصد تعداد خُدا نا آشنا سیکولر حکمرانوں کی سیاہ کاریوں سے تنگ آ کرسیاست میں اسلام کا مو¿ثر کردار چاہتی ہے اور ملک کے نظام کو قرآن کے رنگ میں رنگا ہوا دیکھنے کی متمنی ہے۔ یہ رجحان اور رائے پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال میں زیادہ پختہ ہوئی ہے۔اس قسم کے سروے اگرچہ عوامی رجحانات اور نقطہِ نظر کی مکمل عکاسی نہیں کرتے لیکن ان کو جھٹلانا بھی کوئی معقول روش نہیں ہے۔ جدید معاشروں میں ان کو پیشِ نظر رکھ کر حکومتیںاپنی پالیسیوں کی نوک پلک سنوارتی اور سیاسی قوتیں اپنے منشور اور حکمتِ عملی کی جہتیں درست کرتی ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024