پاکستان سب کی ترجیح اول ہونی چاہیے

Jan 17, 2025

مسرت قیوم


ایک دو روپے بھی نہیں پورے 3 روپے47 پیسے پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی۔ مہنگائی پہلے ہی کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے تو سوچیے اس ظلم پر عوام کی جیب پر کتنا وزن پڑے گا۔ مہنگائی واحد نکتہ ہے جس پر حکومت سے لیکر اپوزیشن تک سبھی متفق ہیں جس کی مثال اراکین قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کی خبریں ہیں بقول ممبران مہنگائی بہت ہو چکی ہے موجودہ تنخواہ میں گزارہ ممکن نہیں وہ لوگ جو کروڑوں اربوں روپے لگا کر ایوانوں میں آتے ہیں وہ پریشان ہیں تو عوام کی مشکلات کا سوچ کر دل کانپ اْٹھنا چاہیے۔ ایک ایسا شخص طاقتور ہو اور وزیر بھی ہو اس کے لیے کیا مشکل ہے؟ کسی خواہش کو پورا کرنا۔ عام آدمی یا صرف دولتمند شخص کے لیے تو متعدد رکاوٹیں حائل ہونا ممکن ہیں خواہشات کی تکمیل میں مگر ایک وزیر وہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے دکھی مسئلہ کے حل پر مامور وزارت کا 50 روپے بجلی قیمت میں کمی کی خواہش، کیا دشواری ہے؟ نیپرا دو ہفتہ قبل بجلی قیمت میں 20روپے کمی کی تجاویز تیار کر کے حکومت کو بجھوا چکا ہے جو اب 12روپے کمی تک آچکی ہے۔ 1100 ارب کی بچت کے ماحول میں بجلی 100روپے سے زیادہ کم ہونی چاہیے۔
 اربوں روپے کی بچت کا فائدہ پورا نہ سہی کچھ حد تک عوام تک ضرور منتقل ہو جانا چاہیے تھا۔ گھریلو صارفین کے لیے 4 روپے کمی کے اثرات تاحال لا پتا ہیں۔ کاروبار اور سماج کے بڑھتے مسائل سب کے سامنے ہیں۔ مہنگائی ہنوز سب سے بڑا چیلنج ہے کوششوں کے باوجود جس کا گراف نیچے نہیں آرہا۔ حیرت ہے کہ تدابیر ہیں مگر نتائج اشاریوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔ حکومت عوامی امیدوں کے ساتھ کھڑی ہے مگر اقدامات فائدہ مند ثمرات پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔خوش قسمتی سے حکومت سے لے کر سٹیٹ بینک تک سب اس معاملہ میں ایک صفحہ پر ہیں۔ شاید عوام ہی بدقسمت ہیں کہ ہر ثمر ان کے دروازے پر آنے سے پہلے بے ثمر ہو جاتا ہے آئی پی پیز کے معاہدوں پر جاری ریاست کی سرگرم کاوشیں دکھائی دے رہی ہیں مگر عوام معتدبہ کمی کے خواہاں ہیں کیا مشکل ہے طاقتور ستونوں پر کھڑی حکومت کے لیے عوامی خواہش کو پورا نہ کرنا۔ ہم باہر گئے یا کوئی دوسرا ہمارے ملک میں آیا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہمیت دوروں کی نہیں ہوتی۔ کروڑوں روپوں سے سجائی گئی تقریب میں دستخط کردہ معاہدوں پر عمل درآمد کی ہوتی ہے۔ کاش ہم یہ نکتہ اب ہی سمجھ لیں۔ ہماری 80 سالہ قومی تاریخ لا محدود دوروں اور انگنت معاہدوں سے بھری پڑی ہے۔ انوکھی بات ہے قرض لینے والے خوشحالی اور ترقی پر گامزن ہونے کی خبریں سْنا رے ہیں جبکہ قرض دینے والے ڈرا رہے ہیں بقول ’’ورلڈ بینک‘‘ پاکستان میں مزید 1.3 کروڑ لوگ غربت کا شکار ہو گئے یعنی غربت 7 فیصد سے زائد بڑھ گئی ہے اور ہم؟
2025ء پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا سال ہے۔ اِس بیان کے سچ ہونے پر صدق دل سے دعاگو ہیں۔ موجودہ وقت اور آنے والے سال ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ زیادہ تیزی سے جْڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور ہم فائر وال سے۔ دہائیوں سے دنیا ایک بٹن کے فاصلے پر آکھڑی ہوئی تھی اب تو اْن کی مواصلاقی رابطوں کی جدت۔ ترقی کا بس ہم تصور ہی کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے بغیر ہم بیرونی دنیا کو کیسے اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ ایک ذہین ترین قوم کی موجودگی کے باوجود معیشت سدھر نہیں رہی تو ناروا بندشوں اور غیر ضروری رکاوٹوں کی وجوہات تلاش کریں یا آگے بڑھنے کے راستے سوچیں۔ اب نوجوان آگے بڑھنے کی بجائے آگے جانے کی لائنوں میں کھڑے ہیں۔ اچھی خبر یورپ پر پی آئی اے کی پہلی پرواز جانے کی۔ بالکل درست پابندی تحریک انصاف کے دور میں لگی۔ اچھا ہوتا کہ پابندی کا باعث بننے والے شخص کو نون لیگ ہرگز قبول نہ کرتی۔ اْس دور میں کرپشن کا ریٹ بہت بڑھ گیا تھا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ کرپٹ لوگوں کو نون لیگ قبول نہ کرتی۔ 100فیصد متفق آدھی کرپشن کم ہو جائے تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں۔ قارئین میرے پاس حکومت ہوتی تو میں بیان کی بجائے عمل کرنے کی اطلاع قوم کو سْناتی۔ نان فائلرز کے متعلق فیصلوں پر قطعاً اعتراض نہیں۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مختلف فورمز پر کاروباری، سماجی، سیاسی شخصیات سے سلام دْعا رہتی ہے بقول اْن کے کاروبار ٹھپ ہیں۔ مراکز میں سناٹا ہے۔ جمود کی کیفیت ہے۔ جبکہ حکومتی سطح پر صورتحال یکسر مختلف ہے۔ سچ کیا ہے؟ روزی کی مشقت اْٹھانے والے پہلے ہی پریشان ہیں تو اب حالات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے۔
اگر ہم دل سے جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر عوام کے حق کے تحفظ کو کلیدی کردار دینا ہوگا۔ جو جیت جائے وہ حکومت کرے بْری بھلی جیسی بھی ہو جو ہار جائے وہ صبر سے انتظار کرے۔ کارکردگی کے بل پر اگلا الیکشن سب کا فیصلہ کر دے گا پر بنیادی شرط سب مانیں کہ شفاف اور آزاد الیکشن کا انعقاد ہمارے تمام مسائل کا حل اِسی ایک نکتہ کے پوری طرف نفاذ میں مْضمر ہے۔ سیاسی شعبدہ بازیاں پہلے ڈراموں اب تماشا گردی میں بدل چکی ہیں تو سوچیے اِس ماحول میں جبکہ قیادتوں کا قبلہ ہی مستقل نہ ہو تو عوام کا اعتماد بحال کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آئین اور قانون کے بلا امتیاز یکساں نفاذ اور اداروں کی تقدیس ضروری ہے تو عوام کا اعتماد بحال کرنا سب پر اولیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ انتخابات ہوں یا پارلیمانی روایات کی پاسداری ہر دو طرف اہل سیاست کے غلط رویوں، من پسند فیصلوں کی چاہت موجودہ وقت کی تصویر کشی ہے۔ عوام کا اعتماد بر ی طرح مجروح ہو چکا ہے۔ عوام کی نظر میں اِس وقت ہر معاملہ، بات بے معنی ہو چکی ہے۔ صرف بیانات جاری کرنے سے کوئی بری الذمہ نہیں ہو جاتا۔ سب نظام کی خرابیوں، نقائص، چور دروازوں سے بخوبی واقت ہیں۔ صرف الیکشن کرانے سے مسائل حل ہو جاتے تو پھر 80 سالہ مسائل لمحہ موجود میں سنگین ترین صورت میں نظر نہ آتے۔ یک نکاتی منشور پر سب کا اکٹھ؟ کیا اب ایسا ہو نہیں جانا چاہیے؟ پاکستان سب کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں