بھارت، کشمیر اور ہماری قومی سلامتی کی پالیسی
حال ہی میں ’’قومی سلامتی ‘‘ کے متعلق پاکستان کی پانچ سالہ پالیسی برائے سال 2022-26 ء کا ا علان کیا گیا۔ پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے فرمایا کہ پاکستان اب درست سمت میں جا رہا ہے۔
ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پالیسی کے ’’ عوامی ورژن‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ اس کے بہت سے نکات خفیہ رکھے جائینگے ۔ جب پاکستان نے اتنے تیقن کے ساتھ درست سمت میں سفر کا آغاز کر ہی دیا ہے تو پھر اسے عوام سے خفیہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
منزل کے حصول کا راستہ اور طریقہ کار خفیہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن مقصود اور منزل واضح اور عوام کے سامنے ہونی چاہیے۔ کیا آج کے دور میں بھی یہ دانشمندی ہے کہ اس قسم کے فیصلے جو ملک کی سمت اور تقدیر تبدیل کر رہے ہوں وہ ایوانوں کی بلند دیواروں کے پیچھے کیے جائیں اور عوام سے خفیہ رکھے جائیں؟
پالیسی میں کہا گیا کہ پاکستان خطے اور تمام دنیا کے ساتھ برابری اور باہمی عزت کی بنیاد پر امن چاہتا ہے۔
یہ سنتے ہی میرے ذہن میں فوری طور پر ہمارے ’’مخصوص پڑوسی‘‘ کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم توعرصے سے تیار ہیں، کیا بھارت بھی ہمارے ساتھ عزت اور برابری پر تیار ہے؟
ایک تلخ حقیقت ہے کہ شخص ہو یا کوئی قوم ، عزت اور برابری درخواست یا خواہش کرنے سے نہیں بلکہ آپکی حیثیت، اعمال ، طاقت اور نظریے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس پالیسی کی تشکیل کے دوران چھ سو کے قریب افراد اور تمام ’’ متعلقین‘‘ سے مشورہ کیا گیا ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہمیشہ سے کشمیر رہی ہے، اور کشمیر ہی کی بنیاد پر ہم بھارت کے ساتھ بار بار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس پالیسی کی تشکیل کے وقت کشمیری عوام سے بھی تفصیلی مشورہ کیا گیا ہو گا اور انکی امنگوں اور حقوق کو بھی نظر میں رکھا گیا ہو گا۔ کیونکہ اس خطے کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ سے بھارت کے گرد ہی گھومتی ہے اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشمیر کے گرد گھومتے ہیں۔
اس سلسلے میں ’’نیشنل سکیورٹی ڈویژن‘‘ کی جانب سے جاری کردہ دستاویز میں توانائی، تعلیم، صحت سے لیکر دہشت گردی اور عالمی امن تک سب مسائل کے ذکر کے ساتھ صفحہ نمبر پینتیس پر جموں اور کشمیر کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اس مسئلہ کو پر امن طور پر بذریعہ بات چیت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق حل کیا جانا چاہیے۔
ذاتی طور پر یہ الفاظ پڑھ کر میں کچھ تحفظات کا شکار ہو گیا ہوں۔ کیونکہ ایک تو سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب موجودہ اور تبدیل شدہ دنیا میں کتنی موثر ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ ویسے تو ہم بچپن سے مطالعہ پاکستان کی ہر کتاب میں پڑھتے اور ہر خبرنامے میں سنتے آئے ہیں کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق حل کیا جانا چاہیے۔
عوامی اور جذباتی طور پر تو یہ مطالبہ اور نعرہ بہت دلفریب اور پیارا لگتا ہے لیکن ’’ قومی تحفظ کی پالیسی‘‘ میں اس مطالبے کے شامل کیے جانے کے بارے میں کیا کہوں؟ ایک سوال ہے کہ ہم یہ مطالبہ تو سنتے اور کرتے آ رہے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادیں پڑھی بھی ہیں؟ میں اس سلسلے میںصرف یہ گزارش کر سکتا ہوں کہ ہمارے پالیسی ساز ، سیاست دان ، اقوام متحدہ کی قرار دادیں، خاص طور پر قرار داد نمبر47 (21 اپریل 1948ئ) ایک بار پڑھ لیں اسکے بعد اس قسم کے مطالبات کو اپنی موجودہ خارجہ و قومی پالیسی کا بنیادی جز بنائیں۔
روائتی باتوں کے علاوہ جو اہم بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے، اور اگر بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہو جائے تو ہم بھارت کے ساتھ کشمیر کو درمیان میں لائے بغیر، تجارت کرنے کو تیار ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ تجارت اور اقتصادیات ہماری پہلی ترجیح بن گئے ہیں اور کشمیر کا نمبر انکے بعد آتا ہے؟ خیر تجارت کی اس یکطرفہ خواہش پر تجزیہ دو انداز سے کیا جا سکتا ہے۔
ایک نظریاتی اور دوسرا جسے یار لوگ ’’زمینی حقائق ‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے کو میں ’’زمینی حقائق ‘‘ کی بجائے تجارتی اور اقتصادی کہوں گا کیونکہ میرے خیال میں ’’نظریہ ‘‘ خود سب سے بڑی زمینی حقیقت ہوتا ہے۔ اور نظریہ ہی وہ چیز ہے جو افراد اور اقوام کو بظاہر نظر آنیوالے زمینی حقائق کیخلاف کامیابی سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور راستہ دیتا ہے۔
کیا یہ خواہشات یک طرفہ ہیں یا پھر بھارت سے اس سلسلے میں کوئی بات چیت کی گئی ہے؟ میرا دل و دماغ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ہم تجارت اور امن کی خواہش میں یک طرفہ طور پر اس قدر آگے بڑھ گئے ہوں کہ ہم نے کشمیری عوام ، انکے مصائب اور ان پر ڈھائے جانیوالے بھارتی مظالم بھلا کر بھارت کے اگست 2019ء کے اقدامات قبول کر لیے ہوں۔
اگر بھارت ہمارے ساتھ بات چیت ہی کر لے تو ہم کشمیر کو ایک سائیڈ پر رکھ کر اسکے ساتھ تجارت اور روابط بڑھانے کو تیار ہیں۔ کیا ہمارا واحد اور سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ بھارت بس ہمارے ساتھ بات چیت کیلئے راضی ہو جائے۔ بھارت نہ ہوا محبوبہ ہو گئی جس سے بات کرنے کو ہمارا دل مچل رہا ہے۔ کچھ برسوں سے ہمارا توواحد مطالبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ بات چیت کر لو، یا چلو کرکٹ ہی کھیل لو۔
مجھے بھارت کے ساتھ تجارت پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ بھارت پر ابھی حملہ کر دیں۔ لیکن اس قسم کے اعلانات بطور پالیسی کرنا بھی سمجھ سے باہر ہے۔
اور دوسرا یہ کہ اگر ہم نے اپنی خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی کرنی ہے، یا کسی ’’درمیانی راستے‘‘ پر غور کرنا ہے تو کیا اس سلسلے میں بھارت سے کوئی بات کی گئی ہے کہ ہمیں بدلے میں بھی کچھ ملے گا یا نہیں؟
خارجہ تعلقات ہمیشہ ’’کچھ دو اور کچھ لو ‘‘ کے اصول پر چلتے ہیں۔ اس سب میں ہمیں کچھ مل بھی رہا ہے؟ بصورت دیگر یک طرفہ عشق سے تو آج تک کسی کو بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ ایسی یک طرفہ محبت کا نتیجہ کہیں یہ نہ ہو کہ ہم ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کو سائیڈ پر کر کے تجارت کی امید لگائے بیٹھے ہونگے اور بھارت ہم سے ’’آزا کشمیر ‘‘ کا مطالبہ کر رہا ہو۔ اور اس وقت ہم عالمی برادری کو کہتے پھریں کہ کسی طرح ہمارا آزاد کشمیر ہی بچا دو۔
میں نہ تو امن کا دشمن ہوں نہ بھارت کے ساتھ تجارت کا مخالف اور نہ ہی اپنے اوپر دہشت گرد کا لیبل لگوانا چاہتا ہوں، اس لیے ہم نظریے اور پاکستان کی شہہ رگ کو ایک جانب رکھ کر صرف تجارتی اور اقتصادی اصولوں کی بات کریں تو بھی حقائق اور اعداد و شمار کیمطابق موجودہ حالات اور قوانین میں بھارت کے ساتھ تجارت نہ تو پاکستان کی اقتصادی مشکلات حل کر سکتی ہے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل کا حل تجارت میں مل سکتا ہے۔ (جاری ہے)