منی بجٹ نافذ: آئی ایم ایف غالب، حکومت اور عوام مغلوب

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے فنانس (ضمنی) بل 2022ء کی منظوری دینے کے بعد یہ بل ایکٹ بن گیا ہے۔ اس ایکٹ کی ایک مصدقہ نقل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے حوالے کی جائے گی تاکہ اس کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا جا سکے کہ اس کی طرف سے عائد کردہ شرط پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ عرفِ عام میں منی بجٹ کے نام سے جانے جانے والے اس ایکٹ کے تحت 343 ارب روپے کا بوجھ عوام کی جانب منتقل ہوگیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مختلف اشیاء پر رعایتی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح ختم کرنے اور معمول کا ریٹ نافذ کرنے اور ایکٹ کے تحت تمام اقدامات کے لیے ضروری نوٹیفیکیشن جاری کر دیے ہیں۔ یوں حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک بڑی شرط مان کر خود کو قرضے کی اگلی قسط کے لیے اہل تو ثابت کردیا ہے لیکن اس اہلیت کی قیمت اب عوام کو چکانا پڑے گی۔
منی بجٹ کے نفاذ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ ملک کے اندر بننے والی تمام گاڑیاں مہنگی ہوگئی ہیں۔ علاوہ ازیں، اس سے ادویات اور پولٹری کی تمام پیکٹ بند مصنوعات، بچوں کا دودھ، درآمدی موبائل فون اور تمام بڑی بیکری آئٹمزکی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ڈیوٹی فری شاپس سے قواعد سے ہٹ کر نکالی جانے والی اشیاء پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ پاکستان میں بنائی جانے والی مشینری، پلانٹس، آپریٹس، اپلائنسز، اکوپمنٹس، مکینیکل اور الیکٹریکل کنٹرول ٹرانسمیشن گیئر، مشینری کے پارٹس، قواعد سے ہٹ کر سیکشن13کے تحت ہونے والی برآمدات، ملکی مینو فیکچررزکو خام مال کی سپلائی اور شپنگ صنعت کو فراہم کیے جانے والے پرزوں وغیرہ پر چھوٹ ختم کر کے 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے تحت لیے جانے والے 343 ارب روپے میں سے 280 ارب روپے تو ریفنڈ ہو جائیں گے جبکہ صرف71 ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
ایک طرف منی بجٹ کے نفاذ سے قیمتوں میں ہونے والا اضافہ عوامی مسائل بڑھانے کا باعث بنے گا تو دوسری جانب حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا ہے جس سے یقینا تمام اشیاء کی قیمتیں متاثر ہوں گی۔ وزارت خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق، پٹرول کی قیمت میں 3 روپے 0.1 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت147روپے 83 پیسے ہوگئی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں تین روپے بڑھائے گئے ہیں جس کے بعد ہائی سپیڈ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت بالترتیب 144 روپے 62 پیسے اور 116روپے 48 پیسے ہوگئی ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 3.33 روپے فی لیٹر اضافے کے بعد 114.54روپے ہوگئی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق، پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کے اس اضافہ کو جی ایس ٹی کی شرح میں کمی کرکے کچھ بوجھ حکومت برداشت کرے۔ جی ایس ٹی میں کی جانے والے اس کمی کے باعث حکومت کو 26 ارب روپے کا ریونیو نقصان ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں تین روپے اضافہ عوام کا معاشی قتل ہے۔ گیس و بجلی کے بعد پٹرول کی قیمت میں اضافہ عوام کی جیب پر ڈاکا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے اثرات براہِ راست عوام پر پڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے عوام 27 فروری کو نکلیں گے اور عمران خان کی حکومت کے خلاف اپنا فیصلہ سنائیں گے، عوام کو ایسی حکومت نہیں چاہیے جو ان کے گھروں کے چولہے تک بجھادے۔ ادھر، جمعیت علماء اسلام اور پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے منی بجٹ کو غریب عوام پر ڈرون حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے مہنگائی کے خلاف 23 مارچ کو لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور 23مارچ کو بھی بھرپور مظاہرہ ہو گا۔
2018ء کے انتخابات کے دوران عمران خان نے عوام سے بہت وعدے کیے تھے جن میں سرفہرست یہ تھا کہ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پایا جائے گا اور ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے چھڑایا جائے گا۔ اسی مقصد کے لیے تحریک انصاف کی حکومت اب تک چار وزرائے خزانہ بدل چکی ہے لیکن صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خرابی کی طرف جارہی ہے۔ اندریں حالات، یہ بات نوشتۂ دیوار دکھائی دیتی ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر پائیں گے لیکن یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت جو گھمبیر مسائل پیدا کر کے جارہی ہے آنے والی کوئی بھی حکومت پانچ سال میں ان پر قابو پانے کے قابل نہیں ہوسکے گی۔