مسئلہ کشمیر پر ابہام دور کیا جائے
پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کے کئی پہلو ملک کے اندر اور باہر بحث و تجزیے کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اس کے بعض مندرجات پر تنقید بھی ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے اسی پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی پر مثبت تنقید تو کی جاسکتی ہے لیکن اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ہفتے کے روز لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک متفقہ پالیسی ہے جو تمام شراکت داروں سے مشاورت کے بعد تیار کی گئی تاہم کوئی بھی حکومت اس پالیسی پر نظرثانی کر سکتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پالیسی پر نظر ثانی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی روح کو تبدیل کردیا جائے۔ کشمیر اہم مسئلہ ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مشیر برائے قومی سلامتی کا یہ بیان اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن حالیہ دنوں میں قومی سلامتی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے ضمن میں جو کچھ کہا وہ یقینا عوام سمیت پاکستان میں بہت سے حلقوں کے لیے بے چینی اور اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے۔ اسی حوالے سے ایک اہم عہدیدار کا یہ بیان بھی اخبارات میں نقل ہوا کہ ہم آئندہ سو برس تک بھارت کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتے۔ نئی پالیسی قریبی ہمسایوں کے ساتھ امن کی بات کرتی ہے۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کے کچھ اخبارات میں شائع ہوا بلکہ بھارت میں اسے بہت اہم قرار دیا گیا۔ خطے میں قیامِ امن کی خواہش یقینی طور پر قابلِ ستائش ہے اور پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ماضی میں بھی اس خواہش کا اظہار کرتی رہی ہے تاہم اس خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات اگست 2019ء میں اس وقت سردمہری اور تعطل کا شکار ہوئے جب بھارت نے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضمانت فراہم کرنے والی اپنے آئین کی شق 370 اور 35اے کو ختم کردیا۔ مسئلہ کشمیر بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا مرکزی نقطہ ہے اور اسے کسی بھی صورت میں ایک طرف رکھتے ہوئے تعلقات کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے جو بھی لائحہ عمل طے کیا گیا وہ واضح طور پر عوام کے سامنے رکھنا جانا چاہیے کیونکہ مذکورہ بیان کچھ غلط فہمیوں کو جنم دے رہا ہے اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف پر ہے۔