گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ
آجکل بعض حلقوں سے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بازگشت سْنائی دے رہی ہے مگر لگتا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں جمہوریت کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہوں وہاں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور نیشنل گورنمنٹ بنانے کی باتیں محض کھوکھلے نعرے تو ہو سکتی ہیں لیکن انکو عملی جامہ پہنانا نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے کیونکہ ایسا کام کرنے کے لیے بھی خود ایک طاقتور ضامن کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ایک غیر جمہوری طریقہ ہے ، یعنی کہ گرینڈ نیشل ڈائیلاگ یا نیشنل گورنمنٹ بنائیں تو سیاسی جماعتیں مگر انکو اس سارے کام کے لیے ضمانت کوئی غیر سیاسی شخصیت یا ادارہ دے۔گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت تب پڑتی ہے جب ملک کسی ایمرجنسی صورتحال میں ہو یا پھر جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہوں جبکہ پاکستان میں فی الوقت ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے کہ کوئی ادارہ یا شخصیت صرف اس لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کروائے کہ ماضی کی حکومتی جماعتیں جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں اور انکے بڑے بڑے رہنما کرپشن کیسز بھگت رہے ہیں ایک تو انکی خواہش پوری کی جائے اور نہ ہی اس وقت ملک میں جمہوریت کو باقی اداروں سے کوئی خطرہ لاحق ہے بلکہ اس وقت جمہوری حکومت اور ریاستی اداروں میں ہر معاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ پاکستان میں بعض سیاستدانوں اور بڑے بڑے دانشوروں کے خیال میں جمہوریت تب ہی مضبوط ہوتی ہے جب پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کے اداروں اور عدلیہ میں شدید تناؤ ہوتا ہے۔حالانکہ ایسی صورتحال میں ملک کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔اداروں میں تناؤ جیسی صورتحال میں نہ تو جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی دفاع پائیدار ہو سکتا ہے ، نہ خارجہ پالیسی بن سکتی ہے اور نہ ہی معیشت بہتر ہو سکتی ہے -ویسے تو کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان قومی مسائل پر ہر وقت ہی ڈائیلاگ کی ضرورت ہوتی ہے مگر پاکستان میں سیاسی جماعتیں اْسی وقت ڈائیلاگ کا حصہ بنتی ہیں جب انکے سرکردہ رہنماؤں کا ذاتی مفاد ہوتا ہے ، مثال کے طور پر 2007 میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے National Reconciliation Order ( NRO) متعارف کروایا تھا کہ جس کے بعد تمام سیاستدانوں پر سیاسی مقدمات کا خاتمہ کیا گیا ، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو نہ صرف پاکستان واپس آنے دیا گیا بلکہ الیکشن میں بھی حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔ مگر بعد میں کیا ہوا سب جانتے ہیں ، جس شخص نے تمام سیاسی جماعتوں اور تمام سیاستدانوں کو کھل کر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی اْسی کو ہی نکال باہر کیا گیا اور ملک میں پھر سے وہی دو جماعتیں آپس میں لڑنے مرنے لگیں ، دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف پھر سے نہ صرف کرپشن کے الزامات لگائے بلکہ ایک دوسرے پر مقدمات بھی قائم کیے ، آج پھر جب تمام پرانی سیاسی جماعتیں جو باری باری سالہا سال ملک پر حکومتیں کرتی آئی ہیں اس وقت اپوزیشن میں آئی ہیں تو پھر سے اکھٹے ہو کر نہ صرف منتخب جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے کی خواہش رکھتی ہیں بلکہ اپنے رہنماؤں کے اوپر چلنے والے کرپشن کے مقدمات سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہو سکتا ہے مگر اسی صورت میں جب ملک کے تمام ادارے اس سے مطمئن ہوں۔ چاہے عدلیہ ہو ، پارلیمنٹ ہو ، بیوروکریسی ہو یا پھر پاک فوج ہو تمام اسٹیک ہولڈرز کا اس میں شریک ہونا انتہائی لازم ہے اسکے بعد تمام اداروں کی حدود کا تعین ہو ، سب سے پہلے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات ہوں ، لْوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع ہو اور آئندہ کے لیے احتساب کا نظام تمام قومی اداروں پر یکساں اور بلا تفریق لاگو ہو ،کرپشن ثابت ہونے پر سخت سے سخت سزاؤں کا تعین ہو ،قومی مسائل کے حل کے لیے تمام صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے ، تمام صوبوں کو انکی آبادی اور وسائل کے حساب سے سہولیات مہیا کی جائیں ، ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے ، نااہل سرکاری افسران کا محاسبہ کیا جائے اسکے علاوہ دیگر قومی مسائل پر بھی تمام قومی اداروں کو متفق کیا جائے تب جا کر گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی افادیت نظر آئے گی وگرنہ کرپٹ سیاسی جماعتوں ، کرپٹ افسران اور کرپٹ نظام کو تحفظ دے کر صرف ‘‘ مْک مکا ‘‘ کو گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا نام دے کر پاکستان کے غریب عوام کی آنکھوں میں دھْول جھونکنے سے بہتر ہے کہ جیسا نظام چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے لیکن موجودہ صورتحال میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی باتیں صرف اور صرف کچھ لوگوں کی ذاتی خواہش اور ذاتی مفادات کے تحت پھیلائی جارہی ہیں تاکہ اداروں کو آپس میں الجھا کر اپنی کرپشن کو تحفظ فراہم کیا جا سکے کیونکہ اس وقت دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہنما نیب میں چلنے والے اپنے کیسز سے سخت پریشان ہیں اور انہیں اپنے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی لہٰذا وہ کسی نہ کسی طرح ان کیسز سے چھٹکارا چاہتے ہیں چاہے انہیں کسی سے بھی ڈیل کرنی پڑ جائے مگر موجودہ حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان کو اس سارے معاملے پر قائل کرنا ناممکن نظر آ رہا ہے کیونکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ انکی ساری زندگی کی سیاست ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے ہے لہٰذا وہ کرپشن کیسز پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اسکے علاوہ تمام قومی مسائل پر جب چاہے جو چاہے آ کر مذاکرات کرے تو حکومت بات چیت کرنے کو تیار ہے۔