جوبائیڈن کی حلف برداری اورٹرمپ کاکوڑا

کانگریس کی جانب سے جو بائیڈن کی فتح کی توثیق ہوچکی ہے۔امریکہ کے نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب 20 جنوری کو متوقع ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں21 جنوری تک کرفیونافذکردیا گیا ہے۔ امریکی انتخابات پر عالمی دنیا کی نظریں جمی ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا کو امریکی انتخابات کی کوریج اور امیدواروں کی ہار جیت کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے، کیوں کہ امریکہ میں جو بھی صدر جیتتا ہے، اس کی پالیسیوں کی پوری دنیا کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 2020 کے انتخابات میں سابق نائب امریکی صدر جوبائیڈن نے کامیابی حاصل کی اور اس بار امریکی عوام نے ڈونلڈٹرمپ کو یکسر انداز کردیا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ اپنی متنازع پالیسیوں، غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے پوری دنیا میںمشہوررہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ سالوں میںامریکی عسکری اداروں میں بھی ٹرمپ کے اس رویے کی وجہ سے بہت تناؤ کی کیفیت رہی۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے امریکی عوام کو کئی حوالوں سے تقسیم کی طرف دھکیلا، لیکن پھر بھی ایک کثیر تعداد میں ووٹ لیے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020 کے الیکشن میں واضح ناکامی کے باوجود ٹرمپ اور اس کے حامی ہار ماننے سے انکاری ہیں اور امریکی کانگریس کی عمارت پر ٹرمپ کے حامیوں کا دھاوا امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن سمجھا جا رہا ہے۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور صدارت میں کئی حوالوں سے امریکہ کو پیچھے دھکیلنے میں لگے رہے۔ اس کی بنیادی وجہ ٹرمپ کا وہ نفرت انگزیز لہجہ ہے جو ان کے مزاج کا جز و رہاہے۔ امریکی تھنک ٹینک اس بات پر زور دیتے رہے کہ ٹرمپ خود پسندی کا شکار انسان ہیں اور جتنا عرصہ وہ امریکہ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ،انہوں نے امریکی عوام کو متحد کرنے کی بجائے تشدد ، قومی محاذ آرائی، معیشت کو بگاڑنے،عالمی دنیا کو امریکہ سے تعلقات خراب کرنے اور امریکی خود مختاری کو داؤپر لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ان کے غلط رویے کی وجہ سے آج کا امریکہ اپنی حقیقی تصویر کو مسخ کر چکا ہے ۔ اس کی پوری ذمہ داری ٹرمپ پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ امریکہ طویل وقت سے جنگی جنونیت میں مبتلا ہے ۔ افغانستان،عراق، لیبیاسمیت کئی ممالک میں جنگ مسلط کر رکھی ہے۔جس میں کئی لاکھ انسانوں کو جانی و مالی نقصان کا سامنا ہے۔ ٹرمپ نے ان امریکی فوجیوں کی امریکہ واپسی پر کام تو کیا،لیکن اس میں بھی امریکی عوام کی خواہشات کو ملحوظ خاطر نہیںرکھاگیا۔جس کی وجہ سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے معاملات تاحال کسی منطقی انجام سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ 2020 کے الیکشن میں امریکی عوام نے ایک جارح مزاج صدر سے جان چھڑا لی ہے اورجو بائیڈن کو منتخب کرکے یہ امید کرتے ہیں کہ امریکہ ان کی قیادت میں نئے سفر پر روانہ ہوگا۔20 جنوری کو جوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کی تیاریاں عروج پر ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹل ہل کی عمارت میں ہونے والے پر تشدد واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر جوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کو سخت سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔یاد رہے ! واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کو ٹرمپ کے حامیوں نے حملے کی زد میں لے لیا تھا اور اس پر تشدد سانحے میں ایک پولیس اہلکا رسمیت5 افراد ہلاک، متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ کانگریس کی عمارت امریکی عوام کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے،اس لیے متوقع صدر جو بائیڈن نے اپنے اعلان میںکیپٹل ہل پر حملے کو امریکی تاریخ میں شرمناک قرار دیا تھا۔ اب اس صورت حال کے بعد 20 جنوری کو نئے امریکی صدر جوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کو سخت سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے اور اس لیے گزشتہ ہفتے کے واقعات اور حلف برداری تقریب تک سیکیورٹی کی بدلتی صورت حال کے پیش نظر اصل منصوبے کے برعکس ایک ہفتہ قبل ہی خصوصی سیکیورٹی کے بند و بست کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے امریکی خفیہ سروس نے کہا ہے کہ وہ 13 جنوری سے ہی نیشنل اسپیشل سیکیورٹی کی تعیناتی کے عمل کا آغاز کر دے گی۔ اس کے علاوہ وفاقی ایجنسیز، ریاستی ادارے اور مقامی حکام کے درمیان اس اہم تقریب کے لیے منصوبوں، پوزیشن اور وسائل کے سلسلے میں ہم آہنگی کا کام بھی جاری ہے۔صدر جو بائیڈن امریکی سیاست میں قابل احترام سمجھے جاتے ہیں اور ان کے حالیہ انتخابی مہم میں ان کا پر تحمل انداز تکلم امریکی عوام کو نئے امریکہ کی نوید سنا رہا ہے۔ صدر جوبائیڈن کا دور مشرق وسطی کے اہم ممالک جن میں پاکستان ، بھارت ،افغانستان اور ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے موزوں خیال کیا جارہاہے۔ لہذا عالمی دنیا سمیت مشرق وسطی کے یہ تمام ممالک بھی صدر جو بائیڈن کی حمایت میں اپنے سفیرو ں کے ذریعے نیک خواہشات کے پیغامات پہنچا رہے ہیں۔ جوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تقریب پوری دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی تقریب ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس تقریب میں دہشت گردی کے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے نیشنل گارڈز کی تعیناتی عمل میں لائی جارہی ہے۔ پیر کے روز کیپٹل ہل کی سیکیورٹی کے لیے ’’نیشنل گارڈ بیورو‘‘ سے پندرہ ہزار مزید فوجیوں کو واشنگٹن بھیجنے کو کہا گیا ہے۔ نیشنل گارڈ بیورو کے سربراہ ’’ڈینیئل ہوکینسن‘‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے تشدد کے پیش نظر چھ ہزار 200 نیشنل گارڈز پہلے ہی سے واشنگٹن میں تعینات ہیں۔ سیکیورٹی کے لیے اٹھائے گئے دوسرے اقدامات کے تحت آئندہ 24 جنوری تک واشنگٹن کے تمام اہم سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سیاحوں کو واشنگٹن کے ایسے تمام مقامات تک نہ جانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ امریکی صدر کی حلف برداری تقریب دیکھنے کے لیے لاکھوں لوگ واشنگٹن آتے ہیں، لیکن اس بار تقریب کے منتظمین اور شہر کے میئر مریئل باؤزر نے امریکیوں سے اس تقریب میں شرکت کے لیے واشنگٹن نہ آنے کی اپیل کی ہے۔ جب تک اس تقریب کا باقاعدگی سے اختتام نہیں ہوجاتاتب تک شہر کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا ء کی وجہ سے اس بار کی افتتاحی تقریب پہلے ہی مختصر کر دی گئی تھی اورسیکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر اس بار اس کے مزید سادہ رہنے کی توقع ہے۔ اس بار کی تقریب کی تھیم ’’متحد امریکا‘‘ رکھاگیاہے۔صدرجوبائیڈن اپنی حلف برداری کی تقریب میںسیکیورٹی کلیئرنس پر توجہ نہیں دے رہے اور ایسا محسوس کروا رہے ہیں کہ ان کی ساری توجہ امریکہ کی درگوں صورت حال پر مرکوز ہے۔ اگرچہ صدر جو بائیڈن بے خوف ہیں ،لیکن ان کے لیے اصل خوف کا ماحول ان کے دور صدارت میں شروع ہو گا۔ جب امریکہ کو نئے درپیش چیلینجز سے نبٹنے کے لیے جوبائیڈن اپنی سیاسی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوشش کریں گے۔ امریکی ماہرین ، عوام ، مشرق وسطی کے اہم ترین ممالک کو جو بائیڈن سے بہتر امیدیں وابستہ ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نو منتخب صد جو بائیڈن صدر ٹرمپ کاپھیلا ئی گئی گندگی اور کوڑا کب تک جمع کریں گے؟