معصوم کی بحالی

قید سے بحالی کا بنیادی خیال یہ ہے کہ جس شخص کو قید میں رکھا گیا ہے وہ آزاد ہونے کے بعد کبھی بھی جیل جانا نہیں چاہے گا۔مجرمانہ انصاف کے نظام میں بحالی پروگرامز میں صرف مجرموں کو جرم سے بچنے اور معاشرے میں ان کی بحالی کی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی کو بہتر طریقہ سی گزارنے کی مہارت سے آراستہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔یہ سکینہ کی کہانی ہے جسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینج کے جج محترم منصور علی شاہ نے 6 جنوری 2021 ء کو باعزت بری کیاتھا۔
سکینہ رمضان (77 سال کی عمر) 14 جنوری 2021ء کو ، وومین پریژن اینڈ کریکشنل فیسلٹی، سینٹرل جیل کراچی سے رہا ہوئی اور کوئٹہ سے کراچی منشیات لے جانے کے جرم میں تقریباً 7 سال کی عمر قید کی سزا کاٹنے کے بعد وہ اپنی فیملی سے دوبارہ ملی۔
چونکہ کہانی کا پس منظر ایک غریب عورت ہے جسے اس منشیات کے بارے میں بالکل بھی علم نہیں تھا جو وہ لے جارہی تھی۔ منشیات سے متعلق قانون اور منشیات کے کیس میں اہم ثبوت وہ ہے جسے سکینہ کی رہائی کی وجوہات کو سراہنے کے لئے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سکینہ کو کنٹرل آف نارکوٹک سبسٹینس ایکٹ 1997 کے سیکشن 6 کے تحت سزا سنائی گئی تھی جس کے تحت نشہ آور اشیاء کی فراہمی اور منتقلی پر پابندی عائد ہے اور اس ایکٹ میں حاصل شدہ مقدار کے مطابق سزا بھی موجود ہے۔
چونکہ محترم عدالت کے مختلف فیصلوں میں منشیات کی فراہمی اور منتقلی کے سلسلے میں آگاہی سے متعلق ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت درخواست میں توسیع کی گئی تھی (جیسا کہ سکینہ نے درخواست کی تھی کہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس طرح کا سامان اس کے آجر کے ذریعے دیئے گئے الیکٹرانک سامان میں چھپایا گیا ہے)، سکینہ کی رہائی دراصل استغاثہ کے کیس میں بے ضابطگیوں اور کمزوریوں کا نتیجہ تھی۔
استغاثہ کو، کسی بھی مجرمانہ معاملے میں، بغیر کسی شک کے ملزم کی مجرمیت کو ثابت کرنا ہوگا۔ خاص طور پر منشیات کے کیسز میں حراست سے متعلق ثبوت ہیں جو کہ منشیات کو قبضہ میں لینے سے شروع ہوتے ہیں اور سیمپلز کو الگ کرنا اور آکر کار ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بھیجنا بھی شامل ہے، اس کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس ضمن میں استغاثہ کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ سلسلہ حراست غیر منتزلزل، بغیر کسی شک اور محفوظ ہے۔سکینہ کے کیس ٹرائل کورٹ کے روبرو شواہد پیش کیے گئے جہاں گواہ کی گواہی میں تضاد پایا گیا جس سے یہ معلوم ہوا کہ برآمد شدہ مقدار کے ساتھ ساتھ پوری چین پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔محترم عدالت نے یہ مئوقف بھی اختیار کیا کہ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینسز (حکومتی تجزیہ کاران) رولز 2001 کے سیکشن 6 کی تعمیل اور منشیات کی ٹیسٹنگ کیلئے، ٹیسٹنگ اور تجزیہ کے بعد حکومتی تجزیہ کار کی رپورٹ میں تجربے، طریقہ کار، ٹیسٹ یا مرحلہ وار تفصیلی منصوبہ، بشمول تمام ضروری ریجنٹس اور مخصوص تفصیلات میں ناکامی کی صورت میں اس کے ٹیسٹ یا ایگزامنیشن کے جائز یا ناجائز ہونے کا نتیجہ بھی شامل ہے۔
سکینہ کی کہانی ایسی بے سہارا لوگوں کو ایک عکاسی کرتی ہے جو کہ درپیش چیلنجز، وسائل اور ذرائع کی کمی کے باعث ایسے حالات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اصل منشیات فروش جو کہ منشیات کے پورے نیٹ ورک کو ہینڈ کررہے ہیں ان کیلئے بے سہارا خواتین اور بچے بنیادی اہداف ہیں۔ جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر بہت سی ایسی سکینہ خود کو ایسے حالات میں ڈھونڈتی ہیں جہاں قانون مکمطل طور پر رفوجداری نظام کے تحت نمائندگی یا رہنمائی کے بغیر سخت سزا دیتا ہے۔سکینہ کی بے عزتی کی گئی، اس جرم کے الزام میں کمزور اور بوڑھی عورت کو اس کے گھر والوں سے تقریباً سالوں تک دور رکھا گیا۔ ایسا جرم جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی شک کا فائدہ نہ اٹھا سکی (اس کی برخلاف جس شخص نے اسے اپنی ٹیکسی میں بٹھایا تھا اسے ٹرائل کورٹ نے بری کردیا)۔ ایسا جرم جس کے لئے اصل مجرم بڑی پیمانے پر اعلیٰ عدلیہ کو معاشرے میں منشیات کی لعنت کو متوازن کرنے کے اخلاقی خطرہ کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ بے گناہ افراد کو ان کی آزادی سے محروم رکھنے میں احتیاط برت رہے ہیں۔
سکینہ کو حکومت کی جانب سے باعزت بری قرار دیئے جانے کے لئے کوئی معاوضہ نہیں ملے گا اور نہ ہی بحالی۔ بدقسمتی سے، جیل کا بدنما داغ، منشیات، مجرمانہ سلوک اور اس کی قید سے وابستہ تاریکی اس کے ساتھ رہے گی۔
رہائی کے آخری گھنٹے میں، سکینہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بری ہونے کی خبر موصول ہونے کے بعد تین راتوں کو نیند نہ لینے کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے ساتھی قیدیوں، اسے تحویل میں رکھنے والے افسران، اور وومین پریزن اینڈ کریکشنل فیسلٹی کی سپریٹنڈنٹ کو الوداعی کہا۔ وہ ایک بار پھر اپنے خاندان کے ساتھ متحد ہونے پر خوشی کے آنسو بہا رہی ہے لیکن اس کی کہانی خوش آئند دکھائی نہیں دیتی ہے۔ وہ کہاں جائے گی؟ وہ کیا کرے گی؟ وہ بیرونی دنیا کو کس طرح گلے لگائے گی؟ اور پھر کبھی اس کی بحالی کیسے ہوگی؟