مثالی پولیس کے مثالی کارنامے

زمانے بھر میں گر پولیس کی پہچان ہے کوئی
یہی کہ جان مظلوموں پہ اپنی وار دیتی ہے
مثالی پلس کا لیکن عجب یہ کارنامہ ہے
بلاخوف و تردد شہریوں کا مار دیتی ہے
کر کے ہینڈز اپ مجھ کو مری جیبیں ٹٹولے گی
زبان خاص میں اپنی بہت بے نطق بولے گی
کبھی نزدیک آ کر ناک سے سونگھے گی منہ میرا
کبھی کھلوا کے ڈگی کار کی اس پھرولے گی
میں وہ شہری ہوں دامن جس کا ہے توقیر سے خالی
کچہری ہو یا تھانہ ہو جدھر جائیں ہے رسوائی
حصول آبروئے زندگی کا ہوں تمنائی
نظر امید کی کوئی کرن نہ آج تک آئی
کوئی اس کو سکھائے قیمتی ہر جان ہے پیارے
چلانا اس پہ گولی انتہا کی کاروائی ہے
یہی اک بات تھی اس کے سمجھنے کی ضیاء لیکن
یہی وہ بات ہے اس کی سمجھ میں جو نہ آئی ہے
بظاہر گردش ایام کا جاری تسلسل ہے
مگر ہر رات کا انجام اک سجرا سویرا ہے
طلوع شمس کے آثار کچھ اتنے نمایاں ہیں
نظر آتا ہے چھٹتا جا رہا ظالم اندھیرا ہے
(شرافت ضیاء ،اسلام آباد)