اتوار ‘ 3؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 17؍ جنوری 2021ء
اسلام آباد الیکشن کمشن کے باہر پی ڈی ایم کا مظاہرہ، بلاول شریک نہیں ہوں گے
واہ رے واہ! یہ کیا بات ہے پی ڈی ایم کا یہ مظاہرہ ہی تو اسلام آباد لانگ مارچ کے دھرنے کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اگر یہ ہی بے جان قسم کی مشق ہوئی تو پھر پی ڈی ایم والے دھرنے کا خیال دل سے نکال دیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اس مظاہرے کا تمام تر بوجھ مولانا فضل الرحمن پر ہی ڈالا جارہا ہے۔ معلوم نہیں مریم نواز شریک ہوں گی یا نہیںشاید دال میں کچھ کالا ہے یعنی پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے معاملے میں اس جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کررہی جو اس کو کرنا چاہئے۔ یہ کیا جواز ہے کہ اس روز بلاول عمر کوٹ میں ہوں گے کیا عمر کوٹ کہیں بھاگے جارہا ہے وہاں تو بعد میں بھی جایا جاسکتا ہے مگر یہ الیکشن کمشن کے سامنے مظاہرہ تو سر پر ہے۔ لگتا ہے پیپلزپارٹی والے اپنے نوآموز چیئرمین کو کوچۂ سیاست کی خاک چھاننے سے بچانا چاہتے ہیں۔ انہیں ’’تتی‘‘ ہوا بھی لگنے دینا نہیں چاہتے۔ الیکشن کمشن نے بھی اس مظاہرے کے دن فول پروف سکیورٹی طلب کی ہے۔ لگتا ہے اس دن بقول غالب ’’ ہوکے رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘ والا معاملہ درپیش آسکتا ہے۔ اب بلاول جی کو اس ’’دھول دھپے‘‘ کا تجربہ بھی نہیں اس لئے انہیں پارٹی کی اعلیٰ قیادت یعنی زرداری صاحب کی خواہش پر عمر کوٹ میں مصروف رکھا جارہا ہے۔ اس طرح وہ بھاگ دوڑ ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی حلاوت سے محفوظ رہ سکیں گے حالانکہ یہ سب تو سیاست کا زیور ہیں اور ہر سیاستدان کو یہ پہننا پڑتے ہیں۔ اس تربیت کے بغیر تو سیاستدان بڑا کہلاتا ہی نہیں۔ کیا پیپلزپارٹی والے اپنے قائد کو ابھی سیاست کا طفل مکتب ہی رکھناچاہتے ہیں…
٭٭٭٭٭
قبول اسلام میں قانونی رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ بھارتی ہندو کی ہائیکورٹ میں درخواست
اب کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔ بھارت کی انتہاپسند ہندو جنونی حکومت کی اسلام دشمن پالیسیوں کے باوجود بھارت میں غیرمسلم جن میں ہندو ، بودھ اور دلت یعنی چھوٹی ذاتوں کے لوگ اسلام کے دامان رحمت میں آنے کیلئے بے چین ہیں موجودہ مودی سرکار نے بھی ہندوئوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہوسکتے یعنی اسلام قبول نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے سزا اور جرمانہ بھی مقرر ہے مگر حیرت کی بات ہے کوئی ہندو ، عیسائی ہوجائے ،لادین ہوجائے، بدھ مت اختیار کرلے اس پر ایسا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا کہ اسے جرمانہ اور قید کی شکل میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اس کے باوجود دیکھ لیں لوگ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ شاعر نے سچ کہا تھاکہ…؎
رات کے ماتھے پہ آزاد ستاروں کا ہجوم
ہے فقط صبح درخشاں کے طلوع ہونے تک
کوئی مسلمان ان امتیازی قوانین کیخلاف عدالت میں نہیں گیا مگر انصاف پسند ہندو خود ان غیرانسانی، حقوق انسانی کی توہین کرنیوالے انہیں انکے حقوق سے محروم کرنیوالے قوانین کیخلاف اب عدالتوں سے رجوع کررہے ہیں جس طرح گجرات کی ہائیکورٹ میں دائر یہ درخواست ہے۔ اگر بھارت میں واقعی عدالتیں آزاد ہیں اور انصاف کا بول بالا ہے تو بعید نہیں جلد یا بدیر فیصلہ اس بھارتی شہری کے حق میں آسکتا ہے مگر افسوس اب تک کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ بھارتی عدالتیں بھی اسلام سے خائف ہیںاور سچ کا ساتھ نہیں دیتیں…
٭٭٭٭٭
پاکستان میں کمر توڑ مہنگائی نہیں: ولید اقبال
جی ہاں بالکل سچ کہاہے انہوں نے، یہ واقعی کمر توڑ نہیں گردن توڑ مہنگائی ہے ، کمر توڑ مہنگائی کے وار سے انسان بچ تو سکتا ہے مگر اس گردن توڑ مہنگائی کا مداوا کون کرے۔ اسکے کاری وار سے تو بچنا ہی ناممکن ہوگیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کررہے ہیں، کرلیا ہے مگر حقائق کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں ۔ کسی چیز کی قیمت کنٹرول میں نہیں آرہی، مسلسل بڑھ رہی ہے اب اس طوطا کہانی کا کیا کریں جس میں مسلسل کہا جاتا تھا کہ جب مہنگائی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کے حکمران چور ہیں۔ باقی سب کچھ چھوڑیں اس چینی کوہی لے لیں یہ کیا گل کھلا رہی ہے۔ اس کی قیمت 110 تک پہنچی تو حکومت نے بیرون ملک سے لاکھوں من چینی منگوائی چند دن کیلئے اس کی بدولت چینی کی قیمت یوٹیلیٹی سٹورز پر بقول حکومت 65 روپے تک رہی مگر بازار میں 85 سے نیچے نہیں آئی۔ اب پھر یہی چینی باہر سے منگوانے اور اس پر ٹیکس ختم ہونے کے بعد بھی 100 کا ہندسہ پار کررہی ہے یہی حال آٹے کا بھی ہورہا ہے۔ اس پر لوگ
حیران ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کومیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گرکو میں
چینی کا سیاپا کریں تو آٹا ہاتھ سے نکل جاتا ہے آٹے کو روئیں تو گھی غائب ہوجاتا ہے۔ یوں ہر طرف مہنگائی کی آگ میں سب کچھ جل رہا ہے مگر یہ آگ صرف 88فیصد غریب غرباء کو جلا رہی ہے جبھی تو 12 فیصد اشرافیہ کے ترجمان اطمینان سے نیرو کی طرح بانسری بجا کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں کمر توڑ مہنگائی نہیں۔
٭٭٭٭٭
ڈان سے لے کر چور اچکوں تک کیخلاف کریک ڈائون کا حکم
سی سی پی او لاہور کے اس حکم کے بعد تو جرائم پیشہ اور بدمعاش افراد کو تھرتھر کانپنا چاہئے مگر سچ تو یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی کہیں بھی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جرائم پیشہ مافیاز جانتے ہیں کہ ہر نیا آنے والا تھانیدار یا جیلر آتے ہی تھرتھلی مچانے کی کوشش کرتا ہے بعد میں چند روز بعد ہی سب کچھ ویسے ہی ہوجاتا ہے جیسا چل رہا تھا۔ اب سی سی پی او کے مطابق 3 ہزار سے زیادہ بلیک بک تیار ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں ۔ دیکھنا ہے ان کی بدولت کون کون زنداں کی نذر ہوتا ہے اگر اتنے لوگ واقعی جیلوں کے پیچھے ہو بھی گئے تو کیا ہوگا انکے خونخوار کارندے ان کی غیرموجودگی میں گلشن کا کاروبار اپنے سر پرستوں کی بدولت، جن میں اکثریت قانون کے رکھوالوں یا حکومتی کارندوں کی ہوتی ہے، محفوظ رہتے ہیں اور یہ نظام جاری رہتا ہے۔ جب تک جرائم پیشہ افراد اور انکے سرپرستوں کو کڑی سزا نہیں دی جاتی سرعام الٹا لٹکایا نہیں جاتا نشان عبرت نہیں بنایا جاتا یہ حرام خور مافیا یونہی زور آور رہے گا، غریبوں کی کمائی یونہی لٹتی رہے گی۔ شریف اور قانون پسند شہری یونہی ان درندوں کے ہاتھوں ستائے جاتے رہیں گے۔ یہ بھتہ خور ، غنڈے، قبضہ گروپ اور بدمعاش ، قاتل، رہزن، ڈاکو لٹیرے، عصمت و عزت کے لٹیرے کسی رعایت کے مستحق نہیں ان کیخلاف کریک ڈائون نہیں انہیں ختم کرنے کی پلاننگ کرکے میدان میں اترنا ہوگا۔ قانون ہی یہی ہے کہ وحشی درندوں کو ختم کیا جاتا ہے مزید تباہی پھیلانے سے روکنے کیلئے ۔انہیں پالا نہیں جاتا…