جمعۃ المبارک 21؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 17؍ جنوری2020 ء
غلط شخص کو پھانسی دیدی‘ تہاڑ جیل کا افسر افضل گورو کے ذکر پر رو پڑا
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
بے گناہ کا ناحق خون کبھی چھپ کر نہیں رہتا اور چپ بھی نہیں رہتا۔ آج تہاڑ جیل کے افسر کے آنسو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ افضل گورو بے گناہ تھے۔ انہیں صرف کشمیر کی آزادی کی بات کرنے پر مقبول بٹ شہیدکی طرح تہاڑ جیل میں ناصرف پھانسی پر لٹکایا گیا بلکہ اپنے قائد کی طرح انہیں تہاڑ جیل میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ مگر وہی بات …؎
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
آج خود اس جیل کا پبلک ریلیشن آفیسر ایک ٹی وی پروگرام میں اس مجاہد کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہہ کر رو پڑا کہ ہم نے غلط آدمی کو پھانسی دی۔ افضل گورو دہشت گرد نہیں تھا۔ واقعی سچ بھی یہی ہے۔ اگر قوم کی آزادی کے لئے لڑنا جرم ہے دہشت گردی ہے تو پھر دنیا کے تمام بڑے بڑے قومی رہنما جنہوں نے اپنی قوم کی آزادی کی جنگ لڑی۔ کیا وہ سب بھی دہشت گرد نہیں۔ خود گاندھی جی جنہیں بھارت والے مہاتما کہتے ہیں ساری عمر غیر ملکی سامراج یعنی انگریز سرکار کے خلاف بھارت کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ جیلوں میں گئے قید ہوئے۔ یہ تو ان کی قسمت اچھی تھی اس وقت انگریز حکمران تھے۔ ورنہ ان کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہوتا اور آج ان کا تذکرہ بھی باپو مہاتما گاندھی کی بجائے صرف مہاشور ویر گاندھی کے طور پر ہوتا۔
٭٭٭٭
ہائی کورٹ نے حکومت کو دیامیر اور مہمند ڈیمز کی تفصیلات جمع کرانے کا آخری موقع دیدیا
ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ماضی کے چچا رحمتے نے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ عوام الناس ان کی تعمیر پر سو فیصد یقین کر بیٹھے۔ کئی لوگ تو انکی تکمیل اور فعال ہونے کے بعد بجلی کی فراہمی کے بھی خواب دیکھنے لگے تھے۔ اب ان ڈیمز کے حوالے سے کیس عدالت میں ہے۔ عدالت بار بار حکومت سے ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے تفصیلات طلب کر رہی ہے کہ بتایا جائے زمین کہاں پر اور کتنی خریدی گئی ہے۔ کام کب شروع ہوا ہے، اس بارے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں حکومت کی طرف سے سانپ سونگھ گیا والی کیفیت ہے۔ دیکھتے ہیں سوچ بچار کے بعد وہ کیا جواب جمع کراتی ہے۔ حکومت کے پاس جواب جمع کرانے میں ید طولیٰ رکھنے والے مشیروں کی وافر تعداد موجود ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرا دیں کہ اس معاملے سے لاہور ہائی کورٹ کو کیا لینا دینا ۔ یہ حکومت کا کام ہے جو اسے کرنے دیں۔ کب شروع کرے۔ کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ سب حکومت کی درد سری ہے۔ اس لیے ہائی کورٹ کو اس کیس کی سماعت سے روکا جائے۔ ویسے بھی حکومت اس وقت کئی محاذوں پرمصروف ہے اس لئے اسے ایک نئی قانونی جنگ میں پھنسانا حکومت دشمنی ہے۔
شہزادہ ولیم کا اہلیہ مڈلٹن کے ہمراہ ہوٹل مائی لاہور بریڈ فورڈ کا دورہ
لوگ ویسے ہی تو ’’جنے لہور نئی ویکھیا جمیا ای نئی‘‘ یا ’’لہور لہور اے ‘‘ نہیں کہتے۔ اس شہر بے مثال میں جو بھی آتا ہے وہ اس کا دیوانہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ الف لیلیٰ والے بغداد کی طرح یہ بھی ایک افسانوی شہرت رکھتا ہے جو بارہ دروازوں سے نکل کر اب وسیع رقبہ پر پھیل چکا ہے۔ فارسی میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
صد سال سفر کر دم من مست نہ شدم
یک بار کہ تو دیدم دیوانہ شدم
یعنی سو سال کے سفر نے بھی مجھے مست نہیں کیا مگر ایک بار تجھ کو کیا دیکھا دیوانہ ہو گیا۔ لاہور واقعی اپنے اندر یہی جادوئی طاقت رکھتا ہے۔ گزشتہ برس برطانوی ولی عہد شہزادہ ولیم اپنی ہلیہ مڈلٹن کے ہمراہ لاہور آئے تھے۔ لگتا ہے ان کے دل میں ابھی تک لاہور کی یادیں چٹکیاں لیتی ہیں اور وہ …؎
آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو
جس کی تصویر نگاہوں میں لئے پھرتا ہوں
کا شوق لیے کشاں کشاں بریڈ فورڈ چلے آئے جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں۔ یہاں وہ خاص طور پر ’’مائی لاہور‘‘ میرا لاہور نامی ہوٹل میں آئے اور لاہور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے قلفی اور ملک شیک خود تیار بھی کی اور اس سے دل بھی بہلایا۔ اس موقع پر وہ پاکستان کے زیر تعلیم طلبہ سے گھل مل گئے اور پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان سے بھی ملاقات کی ان کے اس دورہ پر پاکستانی کمیونٹی بھی بہت خوش ہے۔
٭٭٭٭
جنگلات میں آتشزدگی، وزیراعظم کی آسٹریلیا کی مدد کی پیشکش
معلوم نہیں آسٹریلیا والے اس پیشکش کو سنجیدگی سے لے رہے ہوں گے یا نہیں۔ کیونکہ جو ملک سیلاب، برفباری، زلزلہ و دیگر قدرتی آفات و بلیات میں دنیا بھر سے خود امداد طلب کرتا پھرتا ہو وہ بھلا کسی قدرتی آفت سے وہ بھی آگ جیسی خطرناک بلا سے نمٹنے میں کسی کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو شاید وزیر اعظم کو یاد نہ ہو اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں اگر کسی عمارت میں آگ لگ جائے تو تھرتھلی مچ جاتی ہے۔ اس کو بجھانا ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس مطلوبہ تعداد میں واٹر ٹینکر یعنی آگ بجھانے والی گاڑیاں ہی نہیں۔ جو ہیں وہ زمانہ قدیم کی کھٹارہ گاڑیاں ہیں۔ نئی اور جدید گاڑیاں یا مشینری نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ ہی ہمارے پاس جدید صلاحیت والے مطلوبہ تعداد میں آگ بجھانے والے کارکن (فائر فائٹر) ہیں۔ تو صاحبو اب آسٹریلیا والے اس پیشکش کو کیا سمجھیں گے۔آسٹریلیا جس تندہی اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس عظیم بلائے ناگہانی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ مگر یہ آگ ہے کہ پھیلتی اور ہر شے کو خاکستر کرتی جا رہی ہے۔ ویسے بھی فی الحال وزیراعظم اپنے گھر میں لگی مہنگائی اورسیاسی بے چینی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ کر لیں تو بڑے کمال کی بات ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت کے دامن گیر ہوئی یہ آگ بھی آسٹریلیا کے جنگلات کی آگ کی طرح سب کچھ بھسم کر دے۔
٭٭٭٭