حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت

کوئٹہ مسجد میں پھر خود کش دھماکہ ہو گیا جس میں ڈی ایس پی اور امام مسجد سمیت 15بے گنا ہ مسلمان شہید ہو گئے اور اس سے کہیں بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ خدا کرے کہ وہ سب صحت یاب ہو جائیں آمین!یہ دشمن کی طرف سے نئے سال کی پہلی بڑی سلامی تھی ورنہ وزیرستان ، پاک افغان اور پاک بھارت بارڈرز پر تو روزانہ یہ کرتوت جاری رہتے ہیں ۔بارڈرز کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہاں ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ میں کچھ بھی ممکن ہے لیکن وزیرستان اور کوئٹہ کے دھماکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں مکمل امن تا حال ایک خواب ہے۔ ہماری انتظامیہ رسمی بیانات سے آگے کچھ نہیں کر سکتی مثلاً بزدل دشمن کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہونگی۔مسجد میں حملہ کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے وغیرہ وغیرہ۔ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔ بزدل ہیں یا بہادر وہ ہمیں لاشوں کے تحفے دے رہے ہیں ۔ہم یہ تحفے کب اور کیسے واپس کریں گے اسکا فیصلہ تو ہماری لیڈر شپ نے کرنا ہے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم پچھلے کئی سالوں سے دہشتگردی کے خلاف حالت جنگ میں ہیں ۔ہم اب تک بے شمار قربانیاں بھی دے چکے ہیں ۔دشمن کے بھی ہزاروں آدمی موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں مگر دہشتگردی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گو کم ضرور ہو گئی ہے۔ مگر ختم نہیں ہو سکی۔ دشمن کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ ہاتھ دکھا جاتا ہے ۔ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کی شاخیں تو کاٹ دی ہیں مگر جڑیں نہیں کاٹ سکے۔ ویسے یہ کاٹیں بھی کیسے شاید یہ جڑیں ہمارے اپنے ملک میں ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں وہاں تک ہماری پہنچ نہیں ہو سکتی ۔
1947میں جب بھارت تقسیم ہوا تو ایک بہت بڑی انسانی آبادی کو ہجرت کر کے نئے ممالک میں آنا پڑا۔ مسلمان بھارت سے پاکستان آئے اور ہندو اور سکھ یہاں سے بھارت گئے ۔بد قسمتی سے ایک بہت بڑی مسلمان آبادی کسی نہ کسی وجہ سے بھارت سے پاکستان نہ آسکی۔ لوگوں نے قائد اعظم سے سوال کیا کہ جناب جو مسلمان اب بھارت میں رہ گئے ہیں وہ کیا کریں۔ انکا کیا بنے گا؟ قائد نے تحمل مزاجی سے جواب دیا کہ انہیں بھارت کا وفادار شہری بن کر بھارت میں ہی رہنا چاہیے۔ تقدیر کا کھیل کچھ ایسے ہوا کہ بھارت میں رہ جانیوالے مسلمان تو بھارت کے وفادار شہری بن گئے لیکن پاکستان کے تمام مسلمان وفادار شہری نہ بن سکے ۔اس میں مقامی لوگ بھی شامل ہیں اور بھارت سے آنیوالے بھی ۔نجانے کیوں یہ لوگ ہندو بنیوں سے تو خوش ہیں مگر اپنے ملک اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے خوش نہیں حالانکہ پاکستان نے انہیں وہ سب کچھ دیا ہے جس کی ایک مہذب شہری کو ضرورت ہوتی ہے۔کچھ پاکستانی تو ہندوئوں کی غلامی کیلئے اتنے بیتاب ہیں کہ بھارت جانے کیلئے اپنے مذہب تک کو خیر باد کہہ دیا ہے۔آجکل مورتیوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہیں۔
پچھلے سال بھارت میں مسلمانوں کے خلاف دو اہم واقعات رونما ہوئے ۔اول یہ کہ کشمیر کا خصوصی مرتبہ ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر دیا گیا۔ کشمیریوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ انٹر نیٹ اور فون کی سہولیات سے کشمیریوں کو محروم کر دیا گیا۔ چھ ماہ سے کرفیو جاری ہے۔کشمیری بچوں اور عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ کئی نوجوان گولیوں اور سخت سزائوں کا نشانہ بنے۔ بھارتی حکومت نے کسی غیر ملکی کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔ پاکستان نے ہر فورم پر کشمیریوں کی مدد کی بات کی۔ پاکستانیوں نے کشمیریوں کی ہمدردی میں بھارت کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالے مظاہرے کئے۔پاکستان اپنی حیثیت کے مطابق سب کچھ آج سے نہیں بلکہ1948سے کررہا ہے لیکن کسی کشمیری نے بھی آج تک پاکستان کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بطور مسلمان ہم توکشمیر یوںکی مدد کررہے ہیں لیکن کشمیری شاید ہمارے ساتھ رہنے کے لئے تیار ہی نہیں ۔کشمیر میںتحریک آزادی کافی عرصہ سے جاری ہے۔ کشمیری نوجوان بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اس لئے جہاں تک ممکن ہو وہ بھارتی فوج کے خلاف سینہ سپر ہیں لیکن بد قسمتی سے بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس تحریک آزادی کی پشت پر پاکستان ہے۔ کشمیر میں جو بھی آزادی کے لئے کاروائیاں ہوتی ہیں۔ بھارت انہیں پاکستانی دہشتگردی قرار دیتا ہے۔ اس کیلئے وہ ہمیں پوری دنیا میں دہشت گرد سٹیٹ قرار دے کر بد نام کرتا ہے۔ بدلے میں فاٹا ، خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان میں وہ دہشتگردی کرواتاہے۔ بلوچ اور پٹھان نوجوانوں کو600ڈالر ماہانہ پر بھرتی کر کے افغانستان لے جاتا ہے اور انہیں وہاں دہشتگردی کی تربیت دیتا ہے۔امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل بھی بھارت کے ساتھ ہیں۔ ہم کشمیریوں کی ہمدردی کی سزا یہاں شہادتیں دے کر اور عمارتیں تباہ کرا کر برداشت کررہے ہیں مگر آج تک کسی کی طرف سے ایک لفظ بھی شکر یہ کا نہیں آیا۔بنیا بڑا ہوشیار اور شاطر دشمن ہے۔ وہ خود سامنے آکر جانیں نہیں دیتا بلکہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے مرواتا ہے۔پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے سب مسلمان ہیں چاہے وہ افغان ہیں یا پاکستانی۔ یہاں مرنے والے بھی مسلمان ہیں ۔یہ ہے بنیا پالیسی۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف دوسرا اہم واقعہ بھارت کا شہریت ترمیمی بل ہے جس کیمطابق باقی تمام مذاہب کے لوگوں کیلئے بھارتی شہریت کھلی ہے سوا ئے مسلمانوں کے۔انہیں بھارتی شہریت نہیں ملے گی۔ گو بھارت اپنے آپ کو سیکولرجمہوریت قرار دیتا ہے لیکن حقیقت میں عملی طور پر بھارت کو روز اول سے مسلمانوں سے عداوت ہے۔ بھارت میں مسلمان آبادی تقریباً14فیصد ہے جبکہ سکھ آبادی صرف دو 2فیصد ہے ۔سکھوں سے وزیر اعظم بھی بنتا ہے اور آرمی چیف بھی لیکن مسلمانوں کو ان میں سے کوئی عہدہ نہیں ملتا۔ بلکہ ملک کا کوئی اور بھی بڑا عہدہ نہیں ملتا لیکن اس کے باوجودہ بھارت کے مسلمان بھارت سے مطمئن معلوم ہوتے ہیں اور وہ بھارت کے ساتھ وفادار بھی ہیں۔ بھارت کے اس متناز عہ ترمیمی بل کے متعلق پاکستان اور خصوصاً عمران خان نے بھارتی مسلمانوں کی ہمدردی میں کھل کر بھارت کی مذمت کی ہے لیکن اسکا اجر یہ ملا ہے کہ مشہور مسلمان بھارتی لیڈر اسدا الدین اویسی نے جواباً کہا ہے : ’’ خان صاحب (عمران خان) آپ اپنے ملک کو سنبھالیں ہم بھارتی مسلمانوں کی فکر نہ کریں‘‘۔ کچھ اسی قسم کے ریمارکس باقی مسلمان لیڈروں نے بھی دئیے ہیں ۔لہٰذا ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں کس حد تک بھارتی مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے جب کہ انکی طرف سے ہمیں اس قسم کا جواب ملتا ہے۔ جب کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کیا گیا تو تقریباً2ہزار بھارتی علماء نے اکٹھے ہو کر بیان دیا تھا کہ :’’ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ‘‘ ۔حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کے متولی دو سو علماء کو ساتھ لیکر کشمیر گئے اور کشمیر کے لیڈروں کو سمجھایا کہ بھارت کے ساتھ رہنے میں ہی ان کا فائدہ ہے۔ بالی وڈ کے مسلمان فلم سٹارز نے مشترکہ طور پر ایک ٹی وی سیریل تیار کیا جس میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کیا۔ ان حالات میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں مسلمانوں کا عالمی ٹھیکیدار نہیں بننا چاہیے ۔کشمیر کے معاملہ پر کون کون سے مسلمان ممالک ہمارے لئے آگے آئے ہیں۔ بھارتی مسلمان تو ہمیں اپنا مانتے ہی نہیں ۔بھارت کے ایک مسلمان فلم سٹار نے تو پاکستان سے نشان پاکستان کا ایوارڈ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ 1971کی جنگ کے بعد کچھ پاکستانی فوجی آفیسرز بھارت کی قید سے بھاگ کر بمبئی میں مسلمان فلم ایکٹرز کے پاس پاکستان آنے کیلئے امداد کیلئے گئے تو انہوں نے فوری طور پر ان آفیسرز کو اپنے گھروں سے بھگا دیا۔ آجکل سوشل میڈیا پر ایک بھارتی مسلمان عالم دین کی ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ ایک بہت بڑے بھارتی مجمع سے خطاب کررہا ہے اور خطاب میں پاکستان کی تباہی کی دعا مانگتا ہے۔ کیا ان لوگوں کیلئے ہم اپنے جوانوں کی قربانیاں دیں؟