کرنل(ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کی یادمیں

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے۔ تاہم بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی وفات سے ایسا خلاء پیدا ہوتا ہے جسے پُر کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک باغ وبہار شخصیت کرنل(ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے یہ بے لوث سپاہی، کارکنان تحریک پاکستان کی کہکشاں کے جگمگاتے ستارے، 93برس تک ایک زمانے کو اپنی روشنی سے منور کرنے کے بعد 18جنوری 2016کو جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کرنل(ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کو ہم سے بچھڑے چار سال بیت گئے۔ پیرانہ سالی کے باوجود انہیں پہلی نظر دیکھ کر تازگی اورشادمانی کا احساس ہوتا تھا۔ لوگ ان کی خوش گفتاری اور خوش لباسی کو بطور مثال پیش کرتے تھے۔ وہ ایسی شخصیت تھے جن کی موجودگی آپ کو حوصلہ دیتی ہے۔ کرنل صاحب سے میرا نیازمندانہ تعلق38 برس پر محیط رہا۔ وہ ایک فرد نہیں‘ ادارہ تھے‘ اپنی ذات میں انجمن۔ انہوں نے ایک دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدِ ماجد خان دوست محمد خان ترین تحصیلدار تھے اور اپنے علاقے کے ایک دیانتدار افسر کے طور پر جانے اور مانے جاتے تھے۔ کرنل صاحب فخر سے یہ بات بتایا کرتے تھے کہ ’’میرے والد نے ہمیں ہمیشہ لقمۂ حلال کھلایا اور میں نے بھی من و عن ان کی اسی سنت پر عمل کیا‘‘۔
کرنل صاحب کی شخصیت کے کس کس پہلو کو یاد کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت‘شہرت‘دولت غرضیکہ تمام دنیاوی نعمتوں سے مالامال فرمایا مگر اپنے جس وصف کی بدولت انہوں نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا‘ وہ ان کی غریب پروری تھی۔ وہ سر تا پا پاکستان کی محبت میں رنگے ہوئے تھے۔ انکی گفتگو پاکستان کے اوصاف اور قیام پاکستان کے طفیل حاصل ہونے والی نعمتوں پر اظہارِ تشکر پر مبنی ہوتی تھی۔ ان کے وجود سے حب الوطنی کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔1941ء میں جب وہ اپنی مادرِ علمی ایف سی کالج لاہور کے طالب علم تھے تو وہاں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور کچھ عرصہ بعداس کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں1943ء میں آپ کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے حکم پر اگست1946ء میںتحریک سول نا فرمانی کا آغاز ہوا تو آپ نے بڑی جرأت و پامردی سے اس میں حصہ لیا۔ نہ صرف پولیس کا تشدد سہا بلکہ حصول پاکستان کی اس جدوجہد میں جیل جانے کا شرف بھی حاصل کیا۔قیام پاکستان پر مہر تصدیق کے مترادف1946ء کے تاریخ ساز انتخابات میں بھی آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں بھر پور انتخابی مہم چلائی۔ جب 14اگست1947ء کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت معرض وجود میں آ گئی اور مشرقی پنجاب و دیگر علاقوں سے لاکھوں مسلمانوں کو بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب ہجرت کرنا پڑی تو آپ نے ان کی بحالی کے عمل میں دل وجان سے حصہ لیانیز مہاجر کیمپوں میں انہیں طبی امداد مہیا کی ۔ انہیں متعدد بار قائداعظمؒ کو ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد آرمی میں چلے گئے۔ یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد گنگا رام ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 1977ء میں مجلس کارکنانِ تحریکِ پاکستان کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ مجھے بھی طلبا کے نمائندے کے طور پر اس میں شامل کیا۔
1971ء میں ہونیوالے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو وہ تادم آخر بھلا نہ پائے۔ سقوطِ ڈھاکہ کی یاد انہیں آزردہ خاطر کر دیتی تھی۔ ان دنوں آپ بری فوج کی میڈیکل کور کے تحت مشرقی پاکستان میں تعینات تھے‘ لہٰذاانہوںنے بذاتِ خود اس سانحہ کا مشاہدہ کیا تھا۔ جس پاکستان کو بنانے کی خاطر انہوں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر قیادت شب و روز جدوجہد کی تھی‘انگریز سامراج کے جبر اور ہندو بنیے کی چیرہ دستیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا،اس پاکستان کو دو لخت ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس سانحہ کے نتیجہ میں بھارت کی سرزمین پر جنگی قیدی کی حیثیت سے رہنے کی اذیت جھیلی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پران کا مؤقف بڑا واضح تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں نے پاکستان بنانے میں ہم سے زیادہ فعال کردارادا کیا تھا۔ انہوںنے کبھی بھی ہم سے علیحدگی کی خواہش نہ کی تھی۔ دراصل یہ اُس وقت کی ہماری سیاسی و عسکری قیادت تھی جس نے انہیں دھکے دے کر ہم سے الگ کیا اور ہماری اسے بے مروتی کا فائدہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اُٹھایا کہ دشمن سے تو دشمنی ہی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ باہمی اشتراک سے کام کررہے ہیں۔ کرنل صاحب وفات سے 2ماہ قبل تک ان اداروں کی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔ یہ پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے ان کی کمٹمنٹ کی واضح دلیل تھی۔تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے تو وہ چیئرمین تھے۔ وہ ایک بلند پایہ منتظم تھے۔28 نومبر 1998ء کو وہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ٹرسٹی بنے اور اگست2009ء میں انہوں نے اس کے چیئرمین کا منصب سنبھالا ۔ تب سے وہ ہر چند روز بعد باقاعدگی کے ساتھ ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور آیا کرتے۔ اس ادارے کا مقصد ہی چونکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بے لوث سپاہیوں کی دیکھ بھال اور ان کا اعتراف خدمت ہے‘ لہٰذا ان کی زیر نگرانی ٹرسٹ پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہو گیااور کارکنان تحریک پاکستان اسے اپنی جائے پناہ تصور کرنے لگے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ اس کے زیر اہتمام منعقدہ تقریبات میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے اور شرکاء کو اپنے علم اور تجربے سے متمتع کرتے۔
کرنل(ر) جمشید احمد ترین ایک انتہا ئی وسیع المطالعہ شخص تھے جو ہسپتال داخل ہونے سے قبل تک باقاعدگی کے ساتھ مختلف کتابوں اور جرائد کی ورق گردانی کرتے رہے۔ ایسے اعلیٰ ظرف اور وضع دار انسان اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا سے اُٹھ جائیں تو ان کا متبادل ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ ایک قحط الرجال کی سی صورتحال ہے۔ اب کرنل صاحب کو یاد کرتا ہوں تو گو یا ایک دبستان کھل جاتا ہے۔ رسماً نہیں صحیح معنوں میں مجلسی آدمی تھے۔ تاریخ پر انہیں مکمل عبور تھا۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’مجھے نبی کریمؐ کی زیارت ہوئی ہے۔ بتایا کہ خواب میں ایک صاحب نے نبی کریمؐ کو بتایا کہ یہ جمشید احمد ترین ہیں۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا‘ یہ اچھا آدمی ہے‘‘۔ کرنل صاحب ایک عرصہ تک اس کیفیت اور سعادت کی سرشاری میں رہے۔ اپنے دفتر میں حافظ مرغوب احمد ہمدانی کو مدعو کیا اور نعتیں سنیں۔ مجید نظامی مرحوم بھی اس محفل میں شریک ہوئے۔ کرنل(ر) جمشید احمد ترین مرحوم کے مشن کو ان کے صاحبزادگان سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور معروف بینکر عظمت ترین آگے بڑھا رہے ہیں ، یہ دونوں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں‘دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔ اللہ کریم ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنے بزرگوں کی قدر کرنے‘ ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین