آئی جی سندھ کی تبدیلی کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے، مرتضی وہاب

کراچی (نیوز رپورٹر)حکومت سندھ کے ترجمان و صوبائی مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے آئی جی سندھ کو ہٹانے کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق کیا ہے اور اسے یکطرفہ فیصلہ کہنے والوں کو اس کے بارے میں علم نہیں۔ڈاکٹر کلیم امام کی تبدیلی کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے،پنجاب میں پانچ اور کے پی کے میں چار آئی جی تبدیل کیے گئے لیکن عثمان بزدار اور محمود خان سے تو کوئی سوال نہیں ہوتا۔جمعرات کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرتضی وہاب نے کہا کہ '23 دسمبر کو وزیر اعلی سندھ کی اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے بتایا کہ ہماری حکومت آئی جی سندھ پر اعتماد کھو چکی ہے اور ہم ان کو ہٹانا چاہتے ہیں'۔ 'وزیر اعلی سندھ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ صوبہ سندھ میں قانون کے حوالے سے کوئی بھی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو تنقید کا سامنا حکومت وقت کو کرنا پڑتا ہے جس کا وزیر اعظم نے خود بھی اعتراف کیا'۔انہوں نے کہا کہ 'دونوں چیف ایگزیکٹوز کی ملاقات میں یہ طے ہوا کہ آئی جی کو ہٹانے کے لیے پولیس ایکٹ کے تحت طریقہ کار کا آغاز کیا جائے اور اس کا فیصلہ باہمی رضامندی کے ساتھ ہوا تھا'۔انہوں نے بتایا کہ '23 دسمبر سے 16 جنوری ہوگئی ہے وزیر اعلی سندھ نے انتظار کیا کہ آئی جی سندھ ان کے تحفظات کو دور کرنے اور جرائم کی روک تھام کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے تاہم محکمہ داخلہ کی جانب سے ارسال کیے گئے خطوط کا کوئی معنی خیز جواب نہیں دیا گیا جس پر وزیر اعلی نے کابینہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا'۔انہوں نے دعوی کیا کہ 'وزیر اعلی سندھ نے کابینہ اجلاس بلائے جانے کے حوالے سے وزیر اعظم ہاؤس سے حتمی مشاورت بھی کی تھی'۔ترجمان حکومت سندھ نے کہا کہ 'سندھ کابینہ کے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آئی جی سندھ جرائم انڈیکس کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے ہیں'۔انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف کے دوست جو کہہ رہے تھے کہ سندھ حکومت کا یکطرفہ فیصلہ ہے، وہ لاعلمی پر مبنی تھا'۔انہوں نے یاد دلایا کہ 'پنجاب میں موجودہ حکومت کے دور میں 5 انسپکٹرز جنرلز کو تبدیل کیا جاچکا ہے، خیبر پختونخوا میں 4 آئی جی ہٹائے جاچکے ہیں مگر ان سے کوئی سوال نہیں کرتا'۔مرتضی وہاب نے کہا کہ 'آئین پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حکمرانی آئین و قانون کے مطابق چیف ایگزیکٹو یا اس کی کابینہ کرے گی، عثمان بزدار یا محمود خان صاحب فیصلہ کرتے ہیں تو کوئی سوال نہیں اٹھاتا مگر سندھ میں یہ بار بار سوالات اٹھا کر معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے'۔