سو موٹو کا اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہ ہو : نامزد چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ
نامزد چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ازخود نوٹس کے اختیار کو انتہائی کم استعمال کیا جائے گا ،اس اختیار کو ان بڑے قومی مفاد کے معاملات میں استعمال کیا جائے گا جہاں کوئی اور داد رسی موجود نہ ہوگی اور صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کو ئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگاکہ حا لیہ کچھ عرصہ میں ریاستی اداروں کے درمیاں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی او ر ہر ادارہ اپنے موقف کے متعلق کچھ وجوہات رکھتا ہے ۔ملک کی ترقی کے لیے تمام اداروں کو ملکر کام کرنا چاہیے۔ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی. نامزد چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سبکدوشی پر منعقدہ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار اور میں گزشتہ بیس سال اور آٹھ ماہ سے عدالتی جڑواں رہے۔ طبی طور پر جڑواں وہ ہوتے ہیں جن کے جسم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں اور انہیں سرجری کر کے الگ کیا جاتا ہے۔ ہم دونوں ایک ساتھ 21 مئی 1998کو لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے اور ہمیں تین نومبر 2007میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ہم دوبارہ ایک ساتھ 30 اگست 2008کو بحال ہوئے۔ ہم 18فروری 2010کو عدالت عظمی کے جج مقرر ہوئے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ہماری سنیارٹی ایک ساتھ رہی۔ دو دہائیوں سے زائد اس عرصے میں ہم عدالتی چائے کے کمرے میں ساتھ ساتھ نشستوں پر بیٹھتے رہے۔ اس عرصے کے دوران ہم جسمانی طور پر عدالتی جڑواں کے طور پر اکٹھے رہے۔ آج آدھی رات کے بعد ہم دونوں جڑواں جسمانی طور پر الگ ہو جائیں گے۔ ہم سرجری کے ذریعے الگ نہیں ہوں گے بلکہ قانونی طور پر الگ ہوں گے۔ اس علیحدگی سے ہونے والا نقصان سب سے زیادہ مجھے ہوا ہے۔ ایک مخلص دوست، ایک قابل اعتماد اور منصف وکیل اور اعلی پایہ کا ایک جج بینچ میں میری مدد، تجویز اور رہنمائی کے لئے موجود نہیں ہو گا۔ مجھ سے پہلے بات کرنے والوں نے میاں صاحب کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ میں نے اب تک لاہور ہائیکورٹ کے سو سے زائد ججوں کے ساتھ کام کیا اور میں نے میاں صاحب کو سول، ٹیکس، ریونیو سروس اور آئینی اور قانونی معاملات میں انتہائی قابل پایا۔ میں نے لاہور ہائیکورٹ اور اس عدالت کے بہت سے چیف جسٹسز کے ساتھ کام کیا۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو تاریخ میں ان چیف جسٹسز کی لسٹ میں لکھا جائے گا جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں عدالت کو آگے بڑھایا۔ میاں ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس دور میں بہت مشکل حالات رہے۔ پانامہ پیپرز کا معاملہ، سیاسی رہنما ں کی نااہلی، ملک میں عام انتخابات کے انعقاد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اٹھنے والے قومی مسائل، کرپشن اور برا طرز حکمرانی بڑے چیلنج تھے لیکن میاں نثارگہرے پانی میں پھنسی اس عدالتی کشتی کو نکال کر محفوظ اور ٹھہرے ہوئے پانی میں لے آئے۔ انہوں نے ناصرف عوامی اہمیت کے مسائل پر توجہ دی بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی زور دیا۔ شہروں میں صاف پانی کی فراہمی ریاستی زمین پر تجاوزات کا خاتمہ، ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی فراہمی، طبی اور قانونی تعلیم کی مناسب مینجمنٹ، خالص دودھ کی فراہمی، معاف کئے گئے قرض، میگاکرپشن سکینڈلز کی تحقیقات، بہبود آبادی، ڈیموں وپانی کے ذخائر کی تعمیرکے حوالے سے کام کیا۔ جسٹس ثاقب نثار کی پولیس ریفارم کے حوالے سے اصلاحات، انصاف کی فراہمی کی طرف پہلا قدم ثابت ہونگی۔ انہوں نے جسٹس ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے یہ اقدامات ہمیشہ یاد رکھے اور سراہے جائیں گے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہم اپنے مستقبل میں جھانکتے ہیں۔ میرے بطور جج دو دہائیوں کے تجربے اور ساتھی ججز کی معاونت سے مستقبل میں عدلیہ میں زیرالتوامقدمات نمٹانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اپنے دوستوں کی انتھک کوشش سے ہم فوجداری مقدمات کو نمٹانے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ صرف چند سو فوجداری مقدمات زیرالتواہیں جن کو تازہ مقدمات بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہم نے التواکی درخواستوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وکیل کو عدالت میں پیش ہونے کے سوا کوئی ضروری مصروفیت نہیں رکھنی چاہئے۔ ہم اس پالیسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ فوجداری کیسز کے علاوہ دیگر کیسز میں بھی وکلاسے یہی توقع کریں گے کہ وہ التوانہ لیں۔ ہم جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے برانچ رجسٹریز کے مابین ویڈیو لنکس کے ذریعے وکلاکے دلائل سن سکیں گے اور کیسوں کے فیصلے کر سکیں گے۔ اس ایجاد سے وکلابڑے اخراجات اور تکلیف سے بچ سکیں گے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پنجاب کے کچھ اضلاع میں جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس سید منصور علی شاہ کی معاونت سے قائم کی گئی ماڈل عدالتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتیں میری تجویز پر قائم کی گئیں۔ ان عدالتوں نے تین سے چار روز میں سول اور فوجداری کیسز کے مقدمات نمٹائے۔ ایسے مقدمات کو چار سال سے بھی زائد کا عرصہ لگ جاتا تھا۔ ماڈل عدالتوں کا دائرئہ کار پورے ملک تک بڑھایا جائے گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ میاں صاحب نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ان کی زندگی میں صرف دو خواہشیں ہیں۔ ڈیم تعمیر کروں اور قوم کو خسارے سے نکالوں۔ میں بھی کچھ ڈیم بنانا چاہتا ہوں۔ ایک ڈیم غیرضروری التواکے خلاف ایک ڈیم بے بنیاد مقدمہ بازی، ایک ڈیم جھوٹے گواہوں اور بیانات کے خلاف بنا ں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ زیرالتوامقدمات کا بوجھ بھی ختم کروں جو سب سے پہلی ترجیح ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے اقدامات کر کے ہم مطلوبہ اہداف حاصل کر لیں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عدلیہ کے اس ادارے کے بہترین مفاد کے لئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ہم درستگی کرنے کو زیادہ ترجیح دیں گے۔ ملک میں 19 لاکھ مقدمات زیرالتواہیں اور تین ہزار ججز ان مقدمات کو نمٹانے کے لئے موجود ہیں۔ حکومتیں ججوں کی تعداد بڑھانے میں ناکام رہی ہیں۔ تین ہزار ججز روزانہ چھتیس ہزار گھنٹے بھی کام کر کے اتنے مقدمات نہیں نمٹا سکتے اس لئے ضرورت ہے کہ بڑے اور سخت فیصلے کئے جائیں۔ کام کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے نظام میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دہشت گردی، کرپشن، انسداد منشیات، بینکنگ کورٹس سمیت دیگر تمام عدالتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالتیں وفاقی حکومت کی طرف سے کنٹرول کی جاتی ہیں۔ ان کو بھی عدالتی نظام کے زیراثر ہونا چاہئے۔ فوجی عدالتوں میں فوجداری مقدمات میں عام شہریوں کے ٹرائل عالمی سطح پردرست نہیں سمجھاجاتا۔ اگر قانون ساز یہ سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کو فی الحال کام جاری رکھنا چاہئے توقانون سازوں یہ دیکھنا چاہئے کہ ان عدالتوں کے فیصلوںکی اپیلیں ہائیکورٹ کے سامنے جانی چاہییں تاکہ ایسی عدالتوں کو نارمل عدالتی دائرئہ کار میں لایا جاسکے ۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ معاملات حل طلب ہیں ا ن مسائل کو حل کرنے کیلئے جلد کوشش کی جائے گی ۔ ازخود نوٹس کے اختیار کو انتہائی کم استعمال کیا جائے گا ،اس اختیار کو ان بڑے قومی مفاد کے معاملات میں استعمال کیا جائے گا جہاں کوئی اور داد رسی موجود نہ ہوگی اور صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کو ئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے. میں آخری دم تک لڑوں گا اور مجھے یقین ہے کہ اپنے ساتھیوں اوربار کی مدد اور تعاون سے ہماری جدوجہد کامیاب ہوگی۔ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگاکہ حالہ کچھ عرصہ میں ریاستی اداروں کے درمیاں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی او رپر ادارہ اپنے موقف کے متعلق کچھ وجوہات رکھتا ہے ۔ملک کی ترقی کے لیے تمام اداروں کو ملکر کام کرنا چاہیے۔ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سول اداروں کی بالا دستی ہونی چاہیے.ان کاکہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بہت سنگین ہے گزشتہ غلطیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ہمیں کسی بھی مسئلے پر بات کرنے سے نہیں گھبرانا چاہیے،ہمیں سچ کو سچ کہنا چاہیے۔عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی،مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے ترقیاتی فنڈز دینا نہیں ،مقننہ کا کام ٹرانسفر پوسٹنگ بھی نہیں،فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔