سسٹم کو بچانے کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے
شہبازشریف کی ظہرانہ میٹنگ میں اپوزیشن اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ اور وزیراعظم عمران کا سخت ردعمل
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے منگل کے روز پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اعزاز میں اپوزیشن چیمبرز سے متصل کمرے میں ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین میثاق جمہوریت پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں کے قائدین نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کا بھی جائزہ لیا اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کیلئے آئینی ترمیم پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائیگا تاہم جب تک وفاقی حکومت فوجی عدالتوں کے بارے میں آئینی ترامیم کا مسودہ اپوزیشن کو نہیں دیتی‘ اس وقت تک اپوزیشن آئینی ترمیم کے ضمن میں محتاط طرز عمل اختیار کریگی۔ یہ ظہرانہ اپوزیشن جماعتوں کے غیرمعمولی اجلاس میں تبدیل ہوگیا جس میں آصف علی زرداری کا حکومت کے بارے میں طرز عمل خاصہ جارحانہ رہا۔ انہوں نے حکومت پر دبائو بڑھانے کی پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا۔ اس مشاورتی میٹنگ میں مشترکہ لائحہ عمل اور فوجی عدالتوں سمیت تمام امور پر بات چیت کیلئے کمیٹی قائم کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔
اپوزیشن قائدین نے ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور آصف علی زرداری نے اس امر پر زور دیا کہ حکومت کی جانب سے 23 جنوری کو پیش کئے جانیوالے منی بجٹ کی بھرپور مخالفت کی جائے اور اسی طرح فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی بھی مخالفت کی جائے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اپوزیشن سینٹ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے۔ اس مقصد کیلئے اپوزیشن اتحاد پر اتفاق ہوگیا جس کے خدوخال آئندہ چند دنوں میں وضع ہو جائینگے۔ اجلاس میں حکومت کو کسی قسم کی رعایت نہ دینے اور میثاق جمہوریت کی طرز کا نیا معاہدہ موجودہ حالات کی مناسبت سے طے کرنے پر بھی اتفاق ہوا جس کا مسودہ اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹی تیار کریگی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کیلئے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے بجائے سویلین بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے کردار کے بارے میں بھی مفصل گفتگو ہوئی۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ متحدہ مجلس عمل‘ اے این پی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائدین بھی شریک ہوئے۔
اپوزیشن اتحاد کا سنہری موقع درحقیقت جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے مراحل میں پیدا ہوا تھا کیونکہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا کے سوا کہیں بھی سنگل مجارٹی پارٹی کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی چنانچہ وہ وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں تن تنہاء حکومت سازی کے مراحل میں سرخرو ہونے کی پوزیشن میں نہیں تھی جبکہ سندھ میں سنگل مجارٹی پارٹی کی حیثیت میں پیپلزپارٹی کو اور اسی طرح خیبر پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت تشکیل دینے کا موقع مل گیا تھا۔ اگر اس وقت بالخصوص پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتیں ماضی کی شکر رنجیاں اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی اتحاد پر متفق ہوجاتیں تو ان کیلئے وفاق اور پنجاب میں مشترکہ حکومت تشکیل دینے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوتی جبکہ سینٹ میں پہلے ہی اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی۔ تاہم اس وقت پیپلزپارٹی کی قیادت کو مسلم لیگ (ن)کی حکومت سے لگنے والی چوٹیں شدت سے یاد آئیں اور کچھ سیاسی مفادات بھی آڑے آگئے جسکے باعث سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے مرحلہ میں ہی سیاسی اتحاد کا تصور کافور ہوگیا اور جوتیوں میں دال بٹنے لگی‘ نتیجتاً پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں اپنا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئی جس سے پی ٹی آئی کے وفاقی اقتدار اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی راہ بھی ہموار ہوگئی چنانچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی صفوں میں پیدا ہونیوالے نفاق نے ہی عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کی جسکے بعد فضا ایسی بنی کہ پنجاب اسمبلی میں بھی تقریباً سارے آزاد پنچھی تحریک انصاف کے گھونسلے میں آگئے چنانچہ اس صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو عددی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود اقتدار کا ہما حمزہ شہباز کے سر پر نہ بیٹھ سکا اور یہاں بھی پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوگئی جو مسلم لیگ (ن) کیلئے بڑا سیاسی جھٹکا تھا۔
پی ٹی آئی کو درحقیقت عمران خان کے کرپشن فری سوسائٹی کے تصور اور نئے پاکستان کی شکل میں تبدیلی کے نعرے کے باعث عوامی پذیرائی حاصل ہوئی‘ نتیجتاً اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں‘ ماسوائے سندھ میں اتنی نشستیں حاصل ہوگئیں کہ اس کیلئے حکومت سازی کے مراحل میں عددی اکثریت حاصل کرنا آسان تھاجبکہ اس بنیاد پر عوام کی توقعات بھی اپنے غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کے مسائل کے حل اور لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ وابستہ ہوگئیں اور پھر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان نے ریاست مدینہ کا تصور پیش کرکے خود بھی عوام کی توقعات بڑھائیں اور یہ توقعات اس حد تک بڑھیں کہ عوام اپنے گوناں گوں مسائل کے فوری حل کے متمنی نظر آنے لگے مگر پی ٹی آئی حکومت کی ابتدائی پالیسیوں سے ہی مہنگائی کے طوفان اٹھنے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ موسم سرما میں بھی اذیت کا باعث بننے کے باعث عوام کی توقعات کافور ہونا شروع ہوگئیں۔ چونکہ وزیراعظم عمران خان نے خود حکومتی پالیسیوں کی سمت متعین کرنے اور اپنے وعدے پورے کرنے کیلئے عوام سے سو دن کا وقت مانگا تھا جو پورا ہونے کے بعد عوامی مسائل میں کمی کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا نظر آیا تو اس پر عوامی حلقوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری امر تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کیلئے یہ نادر موقع تھا کہ وہ عوام میں پیدا ہونیوالے اس اضطراب کو حکومت مخالف تحریک کیلئے بروئے کار لاتیں مگر اپوزیشن نے یہ فضا بھی اپنے حق میں کیش کرانے سے گریز کی پالیسی اختیار کی۔
پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں سابق حکمران مسلم لیگ (ن) کو عملاً دیوار کے ساتھ لگایا جاچکا تھا جس کے قائد میاں نوازشریف کی نااہلیت اور قید و جرمانہ کی سزائوں کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے متعدد دوسرے قائدین کو بھی نیب کی جانب سے حراست میں لے لیا گیا۔ یہ صورتحال کسی اپوزیشن جماعت کو حکومت کیخلاف سڑکوں پر آنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے مگر اس پارٹی نے بوجوہ فوری طور پر سڑکوں پر آنے سے گریز کی پالیسی اختیار کی چنانچہ اپوزیشن کی صفوں میں سے حکومت کیلئے سکھ چین کا ہی عندیہ مل رہا تھا جبکہ پیپلزپارٹی نیب کے مقدمات میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت پر آمادہ نظر نہیں آتی تھی۔
اسی دوران نیب کا پہیہ سندھ کی جانب گھومنے لگا اور اومنی گروپ کے معاملات سامنے آنے پر سندھ کا حکمران بھٹو زرداری خاندان لپیٹ میں آتا نظر آیا تو پیپلزپارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کیخلاف نیب سے زیادہ وفاقی حکومت کے بعض حلقے متحرک اور سرگرم ہوگئے بالخصوص وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین‘ وفاقی وزیر فیصل وائوڈا اور پی ٹی آئی کے بعض صوبائی وزراء بھی لٹھ لے کر سندھ حکومت پر چڑھ دوڑے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر آصف علی ز رداری‘ بلاول بھٹو زرداری‘ فریال تالپور اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت سندھ کے 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال کر وزیراعلیٰ سندھ سے استعفے کا تقاضا کیا جانے لگا‘ بصورت دیگر پیپلزپارٹی میں فاروڈ بلاک بنا کر سندھ حکومت کو ختم کرنے کے دعوے سامنے آنے لگے۔ اس معاملہ کا چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی سخت نوٹس لیا اور سندھ حکومت کو گرانے سے باز رہنے کی وارننگ دی اور پھر بلاول بھٹو اور دو دوسرے نام ای سی ایل سے نکالنے کی ہدایت بھی جاری کردی۔ اسکے باوجود سندھ حکومت کیخلاف صف آراء حکومتی حلقوں کے جارحانہ طرز عمل میں کمی نہ آئی۔ انہوں نے بلاول کا نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کا عندیہ دیا اور پھر چودھری فواد حسین نے گزشتہ روز کراچی جا کر یہ کہتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت مزید گرم کردیا کہ نیب آصف علی زرداری‘ فریال اور مرادعلی شاہ کو گرفتار کرلے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی میں فاروڈ بلاک بنانے کا پھر عندیہ دیا جس پر پیپلزپارٹی کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا جس کی جھلک سندھ سے نکل کر اسلام آباد میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے چیمبر میں بھی نظر آنے لگی اور حکومت کیخلاف کسی قسم کی تحریک چلانے سے گریز پا اپوزیشن یکایک حکومت مخالف اتحاد کی تشکیل پر متفق ہوگئی۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن اتحاد کیلئے متحد ہونے کا موقع خود مخصوص حکومتی حلقوں نے فراہم کیا ہے۔ اگرچہ ان دونوں جماعتوں کے قائدین نے فوری طور پر حکومت کو گرانے کیلئے کسی قسم کی پیش رفت کا عندیہ نہیں دیا تاہم اس وقت اپوزیشن ہی نہیں‘ حکومتی اتحادیوں کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلہ میں نواب اخترمینگل تو کافی عرصے سے اپنے تحفظات کا اظہار کررہے تھے جبکہ چودھری فواد حسین کے بیان پر گزشتہ روز حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) کی جانب سے بھی چودھری مونس الٰہی کے ٹویٹ کی صورت میں سخت ردعمل سامنے آچکا ہے جو حکومتی صفوں میں دراڑوں کا عکاس ہے جسے پی ٹی آئی قائدین کو اپنے لئے لمحۂ فکریہ ضرور سمجھنا چاہیے۔ اگر اپوزیشن نے متحد ہو کر حکومت کو صرف سینٹ میں ہی چلنے نہ دینے کی ٹھان لی تو اس کیلئے امور حکومت چلانا عملاً مشکل ہو جائیگا۔ چنانچہ سیاسی محاذآرائی کی اس فضا میں اگر نقصان ہوگا تو صرف حکومت کا ہوگا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے سے بڑا خسارہ تو اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر محاذآرائی کی یہ فضا مزید شدت اختیار کرتی ہے تو اس سے ماضی کے تلخ تجربات کی بنیادپر پورا سسٹم دائو پر لگ سکتا ہے اس لئے حکمران پی ٹی آئی کی قیادت کو فہم و تدبر سے کام لے کر ’’اپنوں‘‘ کی لگائی ہوئی آگ بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سسٹم کی بقاء کا انحصار بلاشبہ حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کی معاملہ فہمی کے ساتھ افہام و تفہیم پر ہی ہے۔ اس سے کسی فریق کی جانب گریز ہوگا تو اس کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی۔