پاکستان چین تعاون میں مزید توسیع
پاکستان اور چین نے گوادر ائیر پورٹ و دیگر سماجی منصوبوں کا تین ماہ میں سنگِ بنیاد رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے 2019ء کو صنعتی ،سماجی و معاشی اور زرعی تعاون کا سال قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات مخدوم خسرو بختیار اور چینی سفیر یائو جنگ کی اسلام آباد میں ملاقات میں سی پیک کے تحت مشترکہ منصوبوں اور پاکستانی برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
سی پیک کے حوالے سے معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز کی اسلام آباد ملاقات میں متعدد منصوبوں پر اتفاق رائے، دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک کی شکل میں مثالی تعاون میں بہت بڑی پیش قدمی بلکہ جست ہو گا۔ علاوہ ازیں پاک چین اقتصادی راہداری کے پراجیکٹ کی تعمیر و تکمیل کے حوالے سے دشمنوں کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کی دھند چھٹ جائیگی۔ مخالفین نے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کو ناکام بتایا جو کہ انکے ناسمجھی کی علامت تھی، وہ اس بصیرت سے محروم تھے جو اعدادو شمار سے آگے دیکھ سکتی، چین نے ہماری اس طرح مدد کا منصوبہ بنایا ہے کہ پاکستان کشکول سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کر لے گا۔ اُس نے اپنے سرمایہ کاروں کو پاکستان جانے اور سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ ہدایت کی ۔ گزشتہ روز چینی سفیر نے بتایا کہ بڑی تعداد میں چینی سرمایہ کار جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ وہ ہر اُس شعبے میں پیسہ لگائیں گے جو ایسی مصنوعات تیار کریگا جو برآمد کی جا سکیں گی یا پاکستان کی درآمدی ضروریات پوری کر سکیں گی۔ تعاون اور سرمایہ کاری، صرف صنعتی شعبے تک محدود نہیں بلکہ اسکے دائرہ کار میں زرعی شعبہ بھی آتا ہے۔ زرعی شعبہ پر آج تک کماحقہ توجہ نہیں دی گئی ورنہ اگر کسی میدان میں ہم خِطے کے دوسرے ملکوں سے آگے نکل سکتے ہیں تو وہ یہی شعبہ ہے۔ پاکستان دودھ اور اس سے تیار کی جانے والی اشیائ، خشک دودھ، مکھن، پنیر، گوشت، کھالیں اور اون کے میدان میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو مات دے سکتا ہے۔ دوچار کیا بلکہ دس بیس ارب ڈالر کی نقد امداد سرمایہ کاری کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ ہم خود کو دوست ملک چین کے اس فراخدلانہ تعاون سے استفادہ کرنے کا اہل بنائیں۔