جمعرات ‘ 10؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 17 ؍ جنوری 2019ء
عمران وزرا کونظم و ضبط سکھائیں، مونسی الٰہی ، حکومت نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا: اختر مینگل
اب تو اپنے بھی حکومتی وزرا کے پٹڑی سے اُترنے کی شکایت کرنے لگے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ واقعی کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ صحافی پہلے ہی بعض وزرا کے رویہ سے نالاں مائل بہ احتجاج ہیں۔پہلے تو چلیں اپوزیشن والے شور و غوغا مچا رہے تھے۔ ا س پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر اب جو یہ بیک وقت مونس الٰہی اور اختر مینگل نے کھلے اور دبے لفظوں میں شکایت کی ہے کہیں یہ طرز بیاں …؎
لبوں پہ درد بھری داستاں چلی آئی
بہار آنے سے پہلے خزاں چلی آئی
والی بات نہ بن جائے۔ اپوزیشن سے لڑنے بھڑنے والے کم از کم گولہ باری کرتے ہوئے دائیں بائیں بھی دیکھ لیا کریں، اس جنگ کا کیا فائدہ جس میں اپنوں کا ہی نقصان ہو۔ اب وفاقی وزرا ء جو بیانی گولے اپوزیشن کے قلعوں پر داغتے ہیں ان کی زد میں ان کے اپنے حلیف بھی آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا اثرتو ہونا ہی ہے جو آج مونس الٰہی کے سخت جواب کی شکل میں سامنے ہے۔ اختر مینگل نے پھر بھی صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ نرم لہجے میں سناوٹ کر دی۔ مگر مونس الٰہی نے تو صاف کہہ دیاکہ حکومتی اتحاد ہل رہا ہے۔ اب جو وزرا اس اتحاد کو ہلانے میںمصروف ہیں یاد رکھیں کہیں وہ ہی اس کے ملبہ تلے دب نہ جائیں۔ پنجاب اور وفاق میں اپوزیشن عددی اعتبار سے زیادہ کمزور نہیں ، کسی بھی وقت بھان متی کا کنبہ وجود میں آ سکتا ہے جو بہرحال خطرے کی علامت ہے…
٭٭………٭٭
انگریزی کے ساتھ فارسی بھی پسندیدہ مضمون ہے: اداکارہ میرا
خدارا میرا جی اپنے اس بیان سے رجوع کر لیں۔اب اس بیان کے بعد تو علمی و ادبی دنیا میں صف ماتم بچھ گئی ہوگی۔ فارسی امت مرحومہ کی عظیم الشان روایات کی امین زبان ہے۔ اس کی پامالی یا بے حرمتی کم از کم علمی و ادبی سطح پر برداشت نہیں کی جائے گی۔ انگریزی غیرملکی‘ سامراجی زبان ہے اور وہ بھی ہمارے ماضی کے غاصب حکمرانوں کی جنہوں نے زبردستی ہمیں غلام بنا کر ہماری زبان جو اس وقت فارسی تھی کا تیا پانچا کر دیا۔ شکر ہے اردو اس وقت آگے بڑھ رہی تھی اس نے فارسی کی جگہ سنبھال لی اور ہمارے علمی و ادبی زوال کی راہ روک لی۔ اس لئے میرا کو حق ہے کہ وہ انگریزی کے ساتھ جو سلوک کرے۔ انگریزی کی ہڈی پسلی ایک کر دے کوئی نہیں روکے گا مگر خدارا وہ انگریزی کی طرح غلط سلط اوٹ پٹانگ قسم کی فارسی بول کر علمی و ادبی حلقوں کا دل نہ توڑے۔ فی الحال اپنی ساری توانائی انگریز دشمنی پر ہی صرف کرے۔ پوری قوم نہ سہی‘ ملک کی 80 فیصد آبادی انگریزی کی اس بے حرمتی پر میرا کے ساتھ ہے۔ مگر فارسی کا معاملہ ذرا دوسرا ہے۔ ابھی کافی لوگ خاص طورپر ادبی و علمی ذوق رکھنے والے اس میٹھی زبان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے لہجوں میں تلخی نہ گھولی جائے ورنہ یہی لوگ میرا کی انگریزی اور فارسی کو بھول کر ان کی اردو سے بھی مین میخ نکالنے لگیں گے کہ میراکو اردو سے بھی توبہ کرنا پڑے گی۔ اس لئے فی الحال وہ اپنی تمام توجہ اداکاری پر ہی مرکوز کریں۔ جہاں قحط الرجال کا عالم طاری ہے اورکوئی انہیں فلموں کی آفر بھی نہیں کر رہا‘ پھر بھی انہیں شاہ رخ کے ساتھ کام کرنے کا جنون نجانے کس بنیاد پر ہے۔ یہ تو وہی بتا سکتی ہیں
٭٭………٭٭
کسانوں کا آلو پھینک کر مال روڈ پر احتجاج
کسانوں کی طرف سے زرعی اجناس اور فصلوںکی بے قدری کے خلاف احتجاج برحق ہے۔ جتنے اخراجات فصل کی بوائی اور تیاری پر ہوتے ہیں‘ اگر ان کی وصولی بھی ہو تودل کو سکون ملتا ہے۔ اگر انہی فصلوں اور اجناس میں کسانوں کو کاشتکاروں کو نقصان ہی نقصان ہو تو وہ مظاہرہ نہیں کریں گے تو کیامیلے منعقد کریں گے۔ بھارت میں بھی آلو کی بے قدری پر لاکھوں کسان سر پیٹ رہے ہیں۔ اب پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ کسان سڑکوں پر آلو پھینک ہے ہیں۔ کئی عقلمند شہری تو شاپر بھر کر آلو اٹھا کر لے جا رہے ہیں تاکہ شام کو آلو کے پراٹھے یا فنگر چپس بنا کر کھائیں۔ اس وقت آلو کے جو ریٹ ہیں بازار میں ان سے تو کسانوں کی لاگت بھی پوری نہیں ہو رہی۔ اس ساری دردسری کی وجہ حکومت بھی جانتی ہے اور کسان بھی۔ جب تک آڑھت مافیا کو داخل دفتر نہیں کیا جاتا‘ کسانوں کو کھیت سے منڈی تک کی براہ راست رسائی نہیں دی جاتی۔ یہ مفت خور آڑھت مافیا دونوں ہاتھوں سے کسانوں اور صارفین یعنی عوام کو لوٹتا رہے گا۔ کوڑیوںکے بھائو یہ کسانوں کی محنت ہتھیاتے ہیں اور سونے کے بھائو منڈی میں فروخت کرتے ہیں جس کے بعد دکاندار رہی سہی کسر نکالتے ہیں اور من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔ اس لئے جب تک کسانوں کا خون چوسنے والی ان جونکوں سے نجات نہیں ملتی‘ کسانوں کیلئے زرعی اجناس کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہونگے۔ وہ اور عام صارف یونہی لٹتے رہیں گے۔ اس لئے …؎
’’آڑھت کو کسان اور صارف کے درمیان سے نکالو۔‘‘کا نعرہ لگانا پڑے گا۔
٭٭………٭٭
سابق صدر پرویز مشرف کے منجمد اکائونٹ سے رقوم نکالے جانے کا انکشاف
اس انکشاف کا صاف مطلب یہ ہے کہ مشرف جی کے اکائونٹس منجمد ہوئے ہی نہیں تھے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سے بھاری رقوم کی ٹرانزیکشن ہوتی۔ عدالت نے سابق صدر کے یہ اکائونٹس منجمد کرنے کا حکم دیا تھا جسے اب معلوم نہیں کس بااثر طاقت کے حکم پر یا اشارے پر ہوا میں اڑا دیا گیا اور سابق صدر اطمینان سے باہر بیٹھے ہوئے اپنے اکائونٹس سے رقم نکلواتے رہے۔ یوںموجاں ہی موجاں رہیں۔ اب عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ان کے دو سال قبل کے اور آج کی موجودہ رقم کے اعدادوشمار میںکافی فرق ہے۔ سو اس فرق کو اب کیسے دور کیا جائے گا۔ اس کا تو بنک والوں کو ہی علم ہوگا جن کی مہربانی سے ان بند اکائونٹس سے پیسے نکالے گئے۔ اس کاریگری یا کارگزاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک بہت سے بااثر طبقات ایسے بھی موجود ہیں جو اپنی من مرضی سے قانون کا رخ بھی موڑ دیتے ہیں۔ قانون بھی ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ اسی سے ہمارے نظام عدل کا دوہرا کردار سامنے آتا ہے جو ایک فریق کیلئے کچھ ہوتا ہے اور دوسرے کیلئے کچھ۔ اب پیسے کم کیسے ہوئے اس پر کہیں مشرف جی بھی رولا نہ ڈال دیں کہ کس نے چرائے ہیں یہ پیسے۔ کون لے گیا ان کے پیسے۔ اس لئے بنک والوں کی خیریت اسی میں ہے کہ عدالت کو بتائیں کہ کس نے نکلوائے ہیںیہ پیسے۔
٭٭………٭٭