میرے مرشد نسیم انور بیگ قائد محترم مجید نظامی کو مدینے والا آدمی کہتے تھے کیونکہ وہ سچے عاشق رسول‘ نظریاتی صحافت کی آبرو اور نظریہ پاکستان کے محافظ ہیں۔ جنرل حمید گل صاحب نے ایک دفعہ مجید نظامی کیلئے اعتراف خدمات کی تقریب میں کہا کہ اگر اللہ تعالی فرشتوں سے یہ پوچھے گا کہ میں نے پاکستان کو کون کون سی نعمتیں عطا کی ہیں تو جہاں وہ پاکستان کیلئے بے شمار نعمتوں کا ذکر کریں گے تو وہیں پہ یہ بھی عرض کریں گے کہ مجید نظامی کی ذات بھی آپ کی طرف سے پاکستان پر ایک احسان ہے۔ آج یہ تینوں برگزیدہ ہستیاں عالم اثیر میں متمکن ہیں۔ نسیم انور بیگ اور جنرل حمید گل جیسی باکردار ہستیاں دنیا میں بھی قائد محترم مجید نظامی کیلئے عزت و احترام کے لئے نہ صرف جذبات رکھتی تھیں بلکہ وہ ہمیشہ انہیں اپنا نظریاتی قائد بھی تسلیم کرتی تھیں۔ مرشد نسیم انور بیگ کہا کرتے تھے کہ نعیم جس چشمے سے کبھی تمہاری پیاس بجھی ہو اور وہ چشمہ سوکھ بھی جائے تو ہمیشہ اس کا احسان مند رہنا اور کبھی کبھار اسے جا کر دیکھ بھی آنا۔ میں نے ہمیشہ یہ بات اپنے پلے باندھے رکھی اور اپنے ماں باپ اور محسنوں کا احسان مند رہا۔ مجید نظامی صاحب سے مجھے کبھی کوئی مالی فوائد تو حاصل نہیں ہوئے مگر میرے قلب و نظر پر ان کی شخصیت اور نظریے کی گہری چھاپ ہے۔ انہوں نے مجھے اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے شناخت عطا کی‘ اپنے اعتبار سے مجھے معتبر بنایا۔ لہذا میں آج تک اور رہتی دنیا تک قائد محترم مجید نظامی کا احسان بار ہوں اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اس چشمے کو جس کی انہوں نے خون جگر سے آبیاری کی اسے دیکھ آتا ہوں مگر کتنے کم ظرف ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں مجید نظامی صاحب نے اپنے اخبار میں پروان چڑھایا‘ انہیں معاشی طور پر مضبوط اور توانا بنایا۔ بار بار نوائے وقت چھوڑا مگر جب بھی معاشی مشکلات کے شکار ہوئے تو بار بار نوائے وقت کے چشمہ آب سے پیاس بجھاتے اور پھر ذاتی لالچ و طمع اور راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں نوائے وقت کی منڈیر سے اڑ جاتے۔
میں کبھی کبھار قائد محترم سے ایسے لوگوں پر احسان مندی کی وجہ پوچھتا کہ وہ کیوں بے وفائوں کو بار بار قبول کر لیتے ہیں حالانکہ حدیث ہے کہ مومن ایک سوراج سے دو بارہ نہیں ڈسا جاتا مگر میرے قائد کا ظرف ایسا کمال کا تھا کہ ۔
بے وفائوں سے وفا کرنے میں گزاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح
زندگی میں تو ہمیں کسی سے بھی اختلاف کا حق ہے مگر جب کوئی شخص اس دنیا میں موجود نہیں ہوتا ہے تو ہمیں قطعاً اخلاقی اور مذہبی طور پر حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس کے بارے میں قابل اعتراض باتیں کریں۔ لایعنی گفتگو کریں۔ کسی بڑے آدمی سے علمی اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر سانجھے نظریے پر اعتراضات کی بوچھاڑ محض اس لئے کر دینا کہ انہوں نے قائداعظم پر فلم بنانے کیلئے تعاون نہیں کیا تھا۔ یہ تو محض بچگانہ بات ہے۔ یا ان کے ساتھیوں کو بابے کہہ کر تمسخر اڑانا ہماری معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔ نظریہ پاکستان کسی بوڑھے اور جوان کیلئے نہیں ہے بلکہ اگر کسی انسان نے اپنی ساری زندگی کی توانائیاں اس نظریے کی آبیاری کیلئے مختص کر دی ہوں جس کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر قائم ہے ۔ ایسا نظریہ جو پاکستان کی روح ہے اور پاکستانی قومیت کی روح یا اس کا باطن وہ تخیل ہے جس کی حفاظت کرنے کیلئے آج بھی نظریہ پاکستان کے اکابرین یعنی بابے نوجوانوں کی مانند بھرپور توانائی سے اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی زندگیاں ہیں کتنی‘ کہ اب ہم ان محسنوں کو کہیں کہ آپ ہمیں مت بتائیں کہ پاکستانی قومیت کا مرکزی عقیدہ اسلام ہے۔ آپ ہمیں مت بتائیں کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اسلامی زندگی اور قدروں کے تصور کو بنیادی حیثیت دیتا ہے۔ یہیں سے غلام حیدر وائین اور مجید نظامی نے یہ درس دینا شروع کیاکہ نظریہ پاکستان کا مقصد محض ایک حکومت قائم کرنا نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی حکومتیں ایشیاء اور افریقہ میں پہلے سے موجود تھیں۔ نظریہ پاکستان کا مقصد اسلامی اصولوں کی ترویج اور اشاعت اور اہل علم کیلئے بے مثالی مملکت کا نمونہ فراہم کرنا ہے۔ نظریہ پاکستان کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا ہے جس کی وجہ سے خدا اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔ ہمارا جینا اور مرنا پاکستان کیلئے ہونا چاہئے۔ قومی مفاد کیلئے ذاتی مفاد کو دل سے نکال دینا چاہئے۔
مجید نظامی صاحب نے میری آنکھوں کے سامنے سابق وزیراعظم نوازشریف کی سرزنش کی جب انہوں نے سیفما کے اجلاس میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا کھانا پینا کلچر اور ایک خون ہونے کی بات کی۔ ہم عمران خان کوکیوں پکار رہے ہیں انہیں کیا پتا کہ نظریہ پاکستان کس چڑیا کا نام ہے اور ہم اسلامی اصولوں کی روشنی میں اقبال اور قائداعظم کے وژن کے مطابق کس طرح پاکستان کو اسلامی اور فلاحی مملکت بنا سکتے ہیں۔
مجھے بھی نظریہ پاکستان میں اختیارات کے ارتکاز پر اعتراض ہے مگر میں نے ہمیشہ مجید نظامی صاحب کی زندگی میں ان سے ٹرسٹ کے طریقہ کار کو بدلنے پر بات کی۔جہاں تک نوجوانوں کو نظریہ پاکستان کا پتہ ہے یا نہیں اس کے متعلق میں یہ کہوں گا نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی کوششوں سے ہی ہمارے میٹرک اور انٹر کی درسی کتابوں میں نظریہ پاکستان اور اسلامی قومیت کے متعلق مضامین موجود ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجید نظامی صاحب نے نظریہ پاکستان کا جو ماڈل تخلیق کیا وہ آج کے حالات میں تبدیلی کی غمازی کرتا ہے مگر یہ کلاسیکل ماڈل ہے اور آج بھی relevence رکھتا ہے کیونکہ ہمارے پاکستان کے مدرسوں اور اردو میڈیم سکولوں اور سرکاری کالجوں کے طلبا و طالبات کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ جدید ٹیکنالوجی اور ورکشاپس کے ذریعے اس آئیڈیالوجی کی جدید تقاضوں پر ریسرچ کریں۔
یہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی برکت سے لے کر پوزیٹو پاکستان نام ایک نوجوانوں کی تنظیم ہے جس کے روح و رواں میرے برخوردار عابد کھاری ہیں۔ وہ آئندہ 23 مارچ کو پورے پاکستان سے بیس ہزار نوجوانوں کے کنونشن کا انعقاد کررہے ہیں۔ مجھے مجید نظامی صاحب نے نظریہ پاکستان فورم کی ذمہ داری سونپی۔ وہ اسلام آباد راولپڈی میں میرے ہاں ہزاروں طالبعلموں کی تقریبات اور نظریاتی سکولوں کی ورکشاپس میں شرکت کر چکے ہیں۔ آج یہی طالبعلم سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں مجید نظامی اور ان کے رفقاء جنہیں بابے کہا جا رہا ہے ان کی بدولت نظریاتی طور پر پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ کوئی مجھے بتائے کہ آج کتنے ادارے نظریہ پاکستان‘ قائداعظم اور اقبال کے نظریات کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ جس عمران خان کو نظریہ پاکستان کے امین کے طور پر بتایا جا رہا ہے دل تھام کر بیٹھیں پہلی دفعہ قائداعظم کے یوم پیدائش پر حکومت نے حکومت یا اس کے ذیلی ادارے نے کوئی تقریب منعقد نہیں کی۔
جب جناح فلم بنائی گئی تو کرسٹوفر کی ذات پر اس لئے اعتراض کیا گیا کہ وہ ویمپائر فلموں کے اداکار ہیں۔ اگر وہ یہ کردار ادا کریں گے تو قائداعظم کی عظمت اور شخصیت گہنا جائے گی۔ وہ الگ بات ہے کہ کرسٹوفر لی جن کی شکل قائداعظم سے ملتی تھی اور وہ ہالی ووڈ کے چوٹی کے منجھے ہوئے اداکار ہیں۔ انہیں قائداعظم کا کردار ادا کرنے میں بڑے دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں پاکستان میں قائد کی صورت سے مشابہ چند افراد تلاش کرلوں اور انہیں قائداعظم کا کردار ادا کرنے کی لئے منتخب کرلوں جن کا اداکاری کے شعبے سے کوئی تعلق نہ ہو تو ایسی مضحکہ خیز تجویزوں پر مجید نظامی صاحب وضع داری میں خاموش رہ کر بھی حرف انکار بلند کر سکتے تھے۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو ون مین شو نہیں ہونا چاہئے اس میں جوان اور قابل خون شامل ہونا چاہئے۔ جلد یا بدیر ایسا ہی ہو گا۔ مگر بقول شاہد رشید مالی مجبوریاں مکمل ہمہ وقتی ماہرین کو ہائر کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ مگر مجید نظامی کے قائم کردہ نظریاتی ادارے پاکستان کی روح کی حفاظت کیلئے ہمیشہ برقرار رہیں گے۔ پاکستان کا جسم یعنی اس کا جغرافیائی وجود تبھی برقرار رہے گا جب اس کے بدن کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی سالم اور برقرار رہے۔ جناب مجید نظامی کی ذات سے ہم سب نے ایک ہی سبق سیکھا۔ …؎
ہزار خوف ہو‘ لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزری ہے رقم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
=…=…=
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024