دو قومی اداروں کو تباہی سے بچانے کی دہائی دی جارہی ہے انہیں تباہی سے بچانے کی آڑ میں تباہ کرنے کی چالیں چلی جارہی ہیں۔
یہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے بارے میں تین اقساط پر مشتمل تحریر پڑھی جو تضاد بیانی کا شاہکار ہے جنت آشیانی، صحافت کے سالار اعلی، نظریہ پاکستان کے محافظ جناب مجید نظامی مرحوم مغفور نے ان اداروں کو اپنے لہو سے سینچا تھا۔ یہ ایسے ادارے ہیںجن کا مقصد نظریہ پاکستان کو اس کی حقیقی روح کی پاسداری کے ساتھ پاکستان کی آنے والی نسلوں تک پہنچانا ہے۔ پنجابی کہاوت ہے کہ ’ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے‘ لیکن بعض کردار ایسے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر ڈائن بھی ڈر جاتی ہے۔ لیکن کیا کریں ایسے کردار ہمارے ارد گرد بلکہ ہر جگہ اپنی خباثتوں اور بدباطنی پھیلانے میں مصروف ومشغول ہیں۔ ایسے کم ظرفوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی ’دکان‘ چمکانے یا اپنے پاؤ گوشت کے لئے پورا بکرا بے رحمی سے ضائع کرادیتے ہیں۔جناب مجید نظامی وہ مرد درویش تھے جن کی موجودگی میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ نظریہ پاکستان کے معاملے میں حد سے آگے بڑھے۔ خاموش طبع باباجی کے رعب کی ایسی شان تھی کہ بڑے بڑوں کو چونچ کھولنے کی مجال نہ ہوتی۔ اس ’بوڑھے سپہ سالار ‘ کے چہرے کے جلال کو دیکھ کر مشرف جیسے کمانڈو کو بھی پسینہ آجاتا تھا جو ایوب خان کے سامنے بھی اس دھج سے بولا کہ پھر فیلڈ مارشل کو مزید گفتگو کا یارا نہ ہوا، آمرکوئی بھی آیا’ فوجی یا سویلین، ہر مرحلے پر یہی مرد درویش میدان کار زار میں کھڑا نظریہ پاکستان اور پاکستان کے حق کا پہرہ دیتا رہا۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ قومی، خودمختار تعلیم وتبلیغ کا ادارہ ہے جس کا بنیادی اور کلیدی مقصد ومدعا نظریہ پاکستان کی ترویج و احیاہے۔ اس کی خاص بات اس کی وہ وابستگی اور خالص پن ہے، اس کی روایت پسندی ہے جس کے خمیر میں قائداعظم، علامہ محمد اقبال اور بانیان پاکستان کی فکر گندھی ہوئی ہے۔ 1992ء میں قائم ہونے والے اس منفرد ادارے کا افتتاح پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تحریک پاکستان کے کارکن غلام حیدر وائیں مرحوم نے کیا تھا۔اسے باضابطہ ایکٹ کے تحت تشکیل دیا گیا اور اس کے مقاصد میں نظریہ پاکستان کا فروغ، تحریک پاکستان کی یاد اور اس کی روح کو زندہ وتابندہ رکھنا، قیام پاکستان کے لئے دی جانے والی قربانیوں اور کاوشیں کرنے والوں کی تلاش، اس ریکارڈ کو سنبھالنا اور ایسے عالی قدر اصحاب کی پزیرائی کرناہے۔ اسلام کی بنیادوں پر پاکستان میں سماجی انصاف کے وعدے کی عملی تعبیر کے لئے جدوجہدکرنے کے علاوہ قومی اتحاد و یک جہتی کا فروغ، اوراستحصال و تقسیم کے فتنوں کی ہر ہر شکل کے خلاف برسرپیکار رہنا اس کے اہداف مقرر ہیں۔
مجید نظامی صاحب اپنی تمام عمر عہد نبھاتے رہے۔ شاید ان کی زندگی اسی مقصد کے لئے وقف تھی۔ آج اس تنظیم کو چلانے والے بزرگوں پر طعن وتشنیع کرنے والے ایسے بھی ہیں جو خمیدہ کمر کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے زندگی کی گاڑی کو دھکا دے رہے ہیں۔ لیکن زبان تو پھر زبان ہے۔ چھٹانک بھرزبان کو سنبھالنے کے لئے بڑی ریاضت درکار ہوتی ہے، ورنہ بڑی بڑی ریاضتیں بیکار ہوجاتی ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے وابستہ بزرگ شخصیات پر پھبتی کسنا پنجابی کی اس مثال کی مانند ہے کہ ’’مراثیاں دیاں جگتاں ماواں بھیناں نال‘‘۔
کہتے ہیں کہ چالیس سال کے بعد انسان کی ہوش قائم ہوتی ہے اور اصل دانائی کا لمس اسی عمر کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ مشرق ومغرب کی کتب دانائی ان مثالوں بھری پڑی ہیں۔ محض کسی کی بیماری اور ضعیف العمری کو بہانہ بنا کر درفنطنیاں چھوڑنا دراصل کسی اور مرض کی علامت ہے۔ قائداعظم کے ’سگے بننے والے‘ ساری زندگی فلمی اشتہاروں، ’’نامناسب سرگرمیوں‘‘ اور بھتہ خوری سے نان نفقہ چلاتے رہے، آج انہیں قائداعظم کی زندگی پر فلم بندی کی یاد ستاتی ہے۔ ٹیلی فون پر ’’بھرے جسم کے خدوخال‘‘ بیان کرنے کی کہانی تو ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی …؎
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اصل تکلیف یہ ہے کہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ عمارت معمولی کرائے پر کیوں دی گئی وہ عمارت میرے تسلط میں کیوں نہیں آئی۔ موصوف ایک دورمیں جنت مکانی مجید نظامی مرحوم کو اپنا 'روحانی باپ' قراردیتے رہے ہیں لیکن اب ان کا تذکرہ بڑے محتاط انداز میں استاد محترم کے الفاظ سے کرتے ہیں شاید وہ ان کی ‘‘جگہ’’ لینے کا خواب دیکھ رہے ہیں اہم سوال یہ ہے ان جیسا بننا مشکل نہیں’ ناممکن ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ چونکہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے ارکان بہت ضعیف اوربزرگ ہوچکے ہیں اس لیے انہیں سبکدوش کردیا جائے موصوف کو جسٹس محبوب کے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ کا رکن ہونے پر بھی شدید اعتراض ہے کہ انہوں نے بقول شخصے عمارت کرائے پر کیوں دی تھی۔موصوف اگرچہ بات صاف کرنے کی بجائے گول مول اورگھما پھرا کررہے ہیں لیکن دراصل وہ نہایت ڈھٹائی سے شاہراہ قائد اعظم، مال روڈ والی بلڈنگ اورجوہرٹاون میں ایوان قائداعظم پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں جیسے بلی کو خواب میں بھی صرف چھچھڑے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024