کسی بھی مقصد میں کامیابی کیلئے بھرپور عزم و استقلال کے ساتھ جدوجہد کو جس قدر اہمیت حاصل ہے‘ حصول مقصد کے بعد سرفرازی کو برقرار رکھنااس سے بھی زیادہ جدوجہد اور بیدار رہنے کی ضرورت ہوتی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں عظیم الشان سیاسی جدوجہد سے پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ مملکت حاصل کرلی مگر کیا اس جدوجہد کا مقصد محض زمین کا الگ ٹکڑا حاصل کرنا تھا۔ عمیق جائزہ لیا جائے ایسا ہرگز نہیں تھا۔ مفکر اسلام علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد‘ دیگر خطابات‘ گفتگوئوں اور مضامین میں مقاصد پاکستان کو اجاگر کیا ہے‘ جیسے نظریۂ پاکستان کی جامع شناخت دی گئی۔ اسلامی دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے آئین میں قرارداد مقاصد کے ذریعہ یہ پیمان باندھا گیا کہ ملک میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ بدقسمتی سے لیاقت علی خان کے بعد اس پیمان کو طاق نسیاں میں رکھ دیا گیا جو قیام پاکستان کے مقاصد کی تڑپ رکھنے والوں کیلئے تکلیف دہ پہلو تھا جن کے سرخیل جناب مجید نظامی تھے۔ یہ لائق تحسین ہے کہ مجید نظامی مرحوم نے ہر دور میں حکومتوں کومتوجہ کرنے کیساتھ ساتھ اپنے حصے کی شمع جلانے کا اظہار نظریہ ٔپاکستان ٹرسٹ کی صورت کیا اور اس طرح نئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے کی عملی کوشش کا آغاز کر دیا گیا۔ تحریک پاکستان کے کارکنوں کو گولڈ میڈل دیئے‘ مشاہیر کی یاد منانے اور جتنا وسائل نے اجازت دی‘ تحریک پاکستان کے حوالے سے تحقیق و تصنیف کا عمل بھی جاری ہے۔اس صورت میں جبکہ ملک کی سیاسی‘ مذہبی‘ سماجی‘ ادبی‘ثقافتی‘ قانونی‘ تجارتی اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے اور اس سے بڑھ کر حکومتوں کی جانب سے اغماض‘ برتا جا رہا ہو تو جناب مجید نظامی کا قائم کردہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ غنیمت جاننا چاہئے۔ ان کی جذبۂ پاکستان اور مقاصد پاکستان سے والہانہ وابستگی پر انگشت نمائی نہیں کی جا سکتی۔
یہ دیکھنے میںبہت معمولی مگر غور کیا جائے تو بہت بڑا کام ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب کسی نہ کسی تعلیمی ادارے کے بچے یہاں مدعو نہ کئے جاتے ہوں۔ انہیں بتایا جاتا ہے پاکستان کیوں معرض وجود میں آیا۔ اس کیلئے قربانیاں دی گئیں اور مقاصد پاکستان کی تکمیل کیلئے نئی نسل کی کیا ذمہ داری ہے۔ بادی النظر میں کچھ لوگوں کو یہ بے نتیجہ مشق نظر آئے مگر حقیقتاً ایک ایسی نظریاتی سپاہ کی تیاری ہے جو ملک کو نظریاتی سرحدوں کی سچی محافظ ہوگی کیونکہ بچوں کے اذہان میں جو کچھ راسخ ہو جائے‘ وہ زندگی کے آخری لمحے تک سوچ کا رہنما رہتا ہے۔ پاکستان کا ہر وہ شہری جو ایسی تڑپ رکھتا ہے‘ وہ خود آگے اور دیکھے کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی صورت ایک بہتری پلیٹ فارم موجود ہے۔ دست تعاون بڑھائے اور اپنے حصے کی شمع روشن کرے۔ جہاں تک ’’بابوں‘‘ کا تعلق ہے‘ پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باوجود وہ اپنے حصے کی شمع فروزاں کئے ہوئے ہیں اور جناب مجید نظامی نے نئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے کیلئے جو شمع روشن کی تھی فانونس بن کر اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔
جناب مجید نظامی کی حیات میں تحریک پاکستان کے حوالے سے ایک بہت جامع فیچر فلم تیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ جناب مجید نظامی نے اس منصوبے سے بلا تامل اور خوش دلی کے ساتھ اتفاق کیا مگر اس کی براہ راست سرپرستی قبول کرنے پر بوجوہ آمادہ نہ ہوئے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس پروجیکٹ کروڑوں روپے خرچ ہونے تھے جو چندہ یا عطیات کی صورت جمع کئے جاتے۔ اپنی صحت کے باعث یہ ممکن نہیں تھا وہ وصولی اور خرچ کے ایک ایک روپے پر خود کڑی نظر رکھ سکتے اور اگر اخراجات کے حوالے سے کہیں بے احتیاتی ہو جاتی اور کسی جانب سے انگلی اٹھا دی جاتی تو ان کا صاف ستھرا دامن بھی داغدار ہونے سے نہیں بچ سکتا تھا‘ ممکن ہے یہ احساس دامنگیر رہا ہو۔
جناب مجید نظامی کا روزنامہ نوائے وقت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا صحافتی محافظ ہے۔ اس حوالے سے ان کی راست بازی کو ہر کسی نے تسلیم کیا ہے۔ محترمہ رمیزہ نظامی کو وراثت میں نوائے وقت ہی نہیں ملا‘ اس کی نظریاتی محاذ پر مقصدی صحافت کا مشن بھی ذمہ داری بنا ہے۔ اور جناب مجیدنظامی کی نظریاتی سوچ کی پاسداری نبھاتے ہوئے نوائے وقت کے حقیقی صحافتی کردار پر بند نہیں لگنے دیا۔ محترمہ رمیزہ نظامی جب جناب مجید نظامی کی نظریاتی سوچ کی امین ہیں تو وہ ان کے قائم کردہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور اس کی سرگرمیوں سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہیں۔ وہ نتیجہ خیز رابطے ضرور رکھتی ہیں۔ کسی کو تنقیدکے تیر برسانے اور انگشت نمائی کے مظاہرے سے نہیں روکا جاسکتا‘ لیکن احمد فراز کی زبان میں یہ مشورہ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ ’’اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔‘‘
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024