مقبوضہ (کشمیر) وادی کی کہانی 70سال پرانی ہے۔ انڈین تسلط کے بعد اس دھرتی پر حریت کی جس تحریک نے جنم لیا وہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ کشمیر کی یہ دھرتی اب تک اڑھائی لاکھ کشمیری نوجوانوں کا خون لے چکی ہے۔ اس کا کوئی قریہ، شہر اور گائوں ایسا نہیں جہاں بھارتی فوج نے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی ہو۔ کسی ماں کے لئے اپنے بیٹے کو جوان کرنا اور پھر اپنی ہی دھرتی پر قربان کر دینا اس مقبوضہ وادی کے ہر مسلمان کشمیری گھرانے کی رِیت بن چکی ہے۔
بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک حریت کو کچلنے کے لیے ایک لاکھوں فوج کشمیر میں تعینات کر رکھی ہے۔ حریت رہنما آئے روز جیلوں میں جاتے ہیں۔ جہاں انہیں مختلف نوعیت کی اذیتیں دی جاتی ہیں لیکن اُن کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہیں آتا۔آزادی کی یہ سب سے بڑی تحریک ہے جو اس وقت کشمیر میں چل رہی ہے۔ سری نگر سے صرف چند کلومیٹر پر واقع ضلع پلوامہ اس وقت کشمیری تحریک کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ جہاں روز کثیر تعداد میں آزادی کے متوالے سڑکوں پر نمودار ہوتے ہیں۔ ناصرف آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں بلکہ پاکستان کی بھی بات کرتے ہیں۔ کئی آزادی کے متوالے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے جھنڈے تھامے ہوتے ہیں۔ اکثر ویڈیوز اس بات کی بھی غمازی کرتی ہیں کہ یہ حریت مجاہد بھارتی فوج کے سامنے ناصرف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ اپنے نعروں میں اس بات کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ مگر بھارت ہی نہیں تمام اقوام ِ عالم نے بھی اس مسئلے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی محکوم کشمیریوں کے لیے اب تک کچھ نہیں کر سکی۔ جبکہ وہاں ایک قرار داد بھی موجود ہے جس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کی گئی ہے۔بھارت اکثر پاکستانی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تاکہ اقوام عالم کی توجہ کشمیر کے مسئلے سے ہٹائی جا سکے۔ سماہنی اور بھنبھر سیکٹر میں ہندوستانی فوج کی پاکستانی علاقے میں گولہ باری اب روز کا معمول ہے۔ اس گولہ باری سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کی شہادتیں بھی ہوتی ہیں۔ مگر جب پاکستانی فوج بھارتی فوج کے خلاف جوابی کارروائی کرتی ہے تو دشمن ناصرف اپنی سرحدی چوکیاں اور مورچے چھوڑ کر پیچھے بھاگ جاتا ہے بلکہ اس ہزیمت کے باوجود بھی باز نہیں آتا اور پھر سے اپنی مذموم کارروئیاں شروع کر دیتا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے بھارتی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ کے آفس بھی طلب کرتا ہے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتا ہے۔ دنیا کو بھی اس سلسلے میں باور کرایا جاتا ہے کہ بھارت خطے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے کیا مذموم کوششیں کر رہا ہے مگر کسی پر مطلق بھی اُس کا اثر نہیں پڑتا۔ پاکستان اور ہندوستان کے مابین یہ پریکٹس برسوں سے جاری ہے اور شاید اگلے کئی برسوں تک یونہی جاری رہے لیکن یہ طے ہے کہ ایک نہ ایک دن کشمیر کے مسئلے کو حل ہونا ہے۔ وہ بات چیت سے حل ہو یا جنگ سے؟ حالات نے مسئلے کے حل کے لیے ضرور اپنا راستہ لینا ہے اور اپنا رخ اختیار کرنا ہے۔
مقبوضہ وادی میں جس طرح کے حالات پائے جاتے ہیں اور جدوجہد آزادی کے نتیجے میں بھارت کو وادی میں جس طرح کی انارکی کا سامنا ہے، اس پر خود ایک سابق بھارتی جرنیل کو کہنا پڑا ہے کہ بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کشمیر کے تنازع کو حل کرے۔ کشمیر کے تنازع کا حل ہی خطے میں امن لا سکتا ہے ۔ا من ہی خطے کے ملکوں میں ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ صرف حکو مت ہی نہیں پاکستانی فوج بھی امن کی خواہاں ہے اور امن قائم کرنے کے لیے بات چیت ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان سازگار ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کئی بار بھارت کو امن مذاکرات کی پیش کش کر چکا ہے اُس نے کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے۔ لیکن بھارت نے ہر بار امن پیشکش کے جواب میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے چونکہ اس وقت بھارت میں الیکشن کا دور دورہ ہے۔ اس لیے قوی خیال یہی ہے کہ بھارت میں جیسے ہی الیکشن ہوں گے اور اُس کے نتیجے میں جو بھی حکو مت برسر اقتدار آئے گی وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات کے حل کے لئے یقینا بات چیت کا آغاز کرے گی کیونکہ دونوں ملکوں کی ترقی کے لیے بات چیت ہی بہتر راستہ ہے۔
پاکستان بات چیت کے لیے سنجیدہ ہے اور یہ بات بھارت بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی طرح سے تسخیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم صرف ایٹمی طاقت ہی نہیں، ہماری فوج بھی اتنی باصلاحیت، دلیر اور بہادر ہے کہ اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت کو زیر کرنے کی نہ صرف قوت رکھتی ہے بلکہ اس کی تمام طاقت کو پارہ پارہ بھی کر سکتی ہے۔ بھارت اچھی طرح اس حقیقت کو جانتا ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ حقائق سے پردہ پوشی نہ کرے۔ جتنی جلد ہو سکے کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل ڈھونڈے۔ پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024