بدھ‘ 4 رجب المرجب 1442ھ‘ 17؍ فروری 2021ء

صدر عارف علوی نے کرونا ویکسین لگوانے کیلئے اپنا نام رجسٹر کرا لیا
گزشتہ روز سے بزرگ شہریوں کو کرونا ویکسین لگوانے کیلئے ان کے ناموں کی رجسٹریشن شروع ہو گئی ہے۔ اس رجسٹریشن مہم کے تحت صدرمملکت عارف علوی نے بھی اپنا نام رجسٹر کروا لیا ہے۔ پہلے تو اُڑتی اُڑتی یہ خبر بھی کانوں تک پہنچی تھی کہ فی الحال بزرگ شہریوں یعنی عام آدمی کو یہ ویکسین لگائی جائے گی کیونکہ اطلاع یہ ہے کہ ویکسین کا ایک ٹیکہ سوا یا ساڑھے تین ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔ عام آدمی کیلئے یہ کافی مہنگا ٹیکہ ہے۔ اس لئے یہ غریبوں کو مفت لگنا چاہئے۔ اب جو لوگ صاحب حیثیت‘ متمول ہیں‘ وہ البتہ چاہیں تو اپنی گرہ سے خرید کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ اب صدرمملکت بھی متمول اور بزرگ شہری ہیں۔ معلوم نہیں انہیں مفت یہ ویکسین لگے گی یا وہ بھی ویکسین خرید کر لگوائیں گے۔ ہمارے ہاں متمول افراد اگر چاہیں تو فی بندہ اپنی طرف سے 100غریبوں کو یہ ویکسین مفت لگوا سکتا ہے۔ یوں ہزاروں لوگوں کا فائدہ ہوگا مگر افسوس کی بات یہ ہے ایسا ہوتا نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔ الٹا دیکھا یہ گیا ہے کہ متمول افراد بھی مفت مال پر ہاتھ صاف کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اب بھی یہ نہ ہو کہ ویکسین کے یہ مفت ٹیکے بالا ہی بالا تقسیم ہوں او رغریب دیکھتے ہی رہ جائیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بہرحال جو ہوگا جلد سامنے آجائے گا۔ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ صدر مملکت کے اس عمل سے لوگوں میں ویکسین لگوانے کا شعور اور حوصلہ پیدا ہوگا اور وہ کسی منفی پراپیگنڈا کا شکار نہیں ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
نیو اسلام آباد ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا طیارہ ٹریکٹر سے ٹکرا گیا
حیرت کی بات ہے۔ پہلے پرندے طیاروں سے ٹکراتے تھے‘ اب یہ کم بخت ٹریکٹر بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ کیا یہ ٹریکٹر اُڑ رہا تھا یا پرواز کیلئے پر تول رہا تھا۔ ابھی تک ٹریکٹروں کا ریکارڈ سب سے زیادہ خراب ٹرین کے ساتھ ٹکرانے کا رہا ہے۔ یہ خبریں عام طورپر سامنے آتی ہیں کہ فلاں کھلے ریلوے پھاٹک پر ٹریکٹر ٹرین سے ٹکرا گیا یا ٹرین نے ٹریکٹر کے پرخچے اڑا دیئے۔ اب یہ سننا باقی رہ گیا تھا کہ پی آئی اے کا طیارہ ٹریکٹر سے ٹکرا گیا۔ ویسے آپس کی بات ہے جب ٹریکٹروں والوں کو سامنے سے آتی ہوئی اتنی بڑی ٹرین نظر نہیں آتی اور وہ ریلوے ٹریک پر چڑھ دوڑتے ہیں تو ان ٹریکٹروالوں کو یہ بے چارہ طیارہ کیا نظر آیا ہوگا۔ بہرحال سارا قصور ٹریکٹر والوں کا ہی نکلتا ہے۔ اب دیکھ لیں یہ ٹریکٹر جو طیارے کو کھینچ کر شیڈ میں لے جا رہا تھا‘ وہی بدمست ہاتھی کی طرح طیارے سے ٹکرا گیا۔ اب یہ زخمی طیارہ انڈر گرائونڈ کر دیا گیا ہے جو مرمت کے بعد ہی اڑنے کے قابل ہو جائے گا۔ ٹریکٹر کا معلوم نہیں اس کو کچھ ہوا یا نہیں ، فی الحال تو…؎
ہم نشے میں محبت کے کھونے لگے
گر نہ جائیں کہیں تم ہمیں تھامنا
طیارے کو تھام کر پرواز کے قابل بنایا جا رہا ہے۔
انتہائی غریب افراد کی نشاندہی کیلئے ورلڈ بنک کے تعاون سے سسٹم بنا رہے ہیں۔ سینٹ قائمہ کمیٹی
اصل مسئلہ انتہائی غربت کے مارے لوگوں کی نشاندہی نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان افراد کا معیار زندگی بلند کیا جائے۔ سسٹم بنانے سے کچھ نہیں ہوتا عالمی اداروں کی رپورٹیں اٹھا کر دیکھ لیں کہیں 40 کہیں 60 فیصد لوگ انتہائی غربت کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس ریس میں سندھ ، خیبر پی کے پہلے دوسرے اور بلوچستان تیسرے نمبر پر ہے۔ ہماری ہر حکومت فلاحی کام کرنے عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے۔ ان دعوئوں کی قلعی یہ رپورٹیں کھول دیتی ہے۔ اب ادارہ تخفیف غربت نے جو حکومتی ادارہ ہے نے جو رپورٹ دی ہے وہ پڑھ کر نہایت دکھ ہوتا ہے۔ اس رپورٹ پر سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے انتہائی غریب افراد کی تلاش کے لئے ورلڈ بنک کے تعاون سے نظام بنانے کا کہا ہے۔ ہمیں اپنے گھر کے غریب بندے تلاش کرنے کے لیے بھی اگر ورلڈ بنک کی ضرورت ہے تو پھر ہمارا محکمہ بیت المال کیا امرا کو پال پوس رہا ہے۔ ان کے لیے یہ بنا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مالی تعاون کے بے نظیر اور احساس پروگرام بھی کیا اپنے پارٹی ورکرز کو نوازنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہیں بند کر دیں۔ پہلے ورلڈ بنک کی مدد سے انتہائی غریب افراد کو محدب عدسے کی مدد سے تلاش کریں پھر ان کی مدد کے لیے کوئی پروگرام بنائیں تاکہ ان کا معیار زندگی سطح غربت سے بلند ہو سکے۔
٭٭٭٭٭
زارا نعیم اے سی سی اے امتحان میں گلوبل پرائز ونر قرار
پاکستانی طالبہ نے اے سی سی اے کے امتحان برائے 2020 ء میں سب سے زیادہ نمبر لے کر اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے جو قابلِ تعریف ہے۔ ان کی اس شاندار کامیابی پر انہیں گلوبل پرائزونر قرار دیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ کی یہ طالبہ داد کی مستحق ہیں۔ ان کی اس کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری خواتین زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی چلنے کی‘ بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں جو لوگ صنفی امتیاز کے پرچارکر ہیں۔ صنفی تقسیم کی وجہ سے لڑکیوں کو صرف گھر کی چاردیواری تک محدود کرنا چاہتے ہیں ان کا زور کم ہو رہا ہے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو بھی اپنے بیٹوں کی طرح پڑھا رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ زارا نعیم کی کامیابی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ پڑھی لکھی لڑکیاں شیشہ نہیں فولاد ہیں۔ اے سی سی اے کا امتحان کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہیں یہ ایک نہایت مشکل حساب کتاب والا امتحان ہے۔ انسانی ذہن کو چکرا دینے والا امتحان جو بڑی محنت سے پاس کیا جاتا ہے۔ ان کی اس کامیابی نے پاکستانیوں کا سرفخر سے بلند کر دیا ہے اور دوسری لڑکیوں میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے کہ وہ بھی آگے بڑھ سکتی ہیں۔ زندگی کے اعلیٰ مدارج طے کر سکتی ہیں۔ انہیں کمزور اور حقیر سمجھنے والے غلط فہمی کا شکار ہیں۔