اردو کے لازوال شاعر اسداللہ غالب نے کیا خوب کہا تھا:
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
قیام پاکستان کے بعد بدقسمت عوام مختلف نوعیت کے تماشے ہی دیکھتے رہے ہیں۔ آجکل سینیٹ تماشا چل رہا ہے۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات کے سلسلے میں ایک ویڈیو لیک ہوئی جس میں سینیٹ کے ارب پتی اُمیدوار اراکین اسمبلی کے ووٹ خریدنے کے لئے کروڑوں روپے دے رہے، حکومت نے یہ ویڈیو ایف آئی اے یا نیب کے سپرد کرنے کی بجائے اپنے ہی وفاقی وزراء پر ایک کمیٹی تشکیل دے دی جو اس ویڈیو کے بارے میں تفتیش کرے گی اور اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔ پاکستان کے عوام اس کمیٹی کو بھی ایک تماشے کے بعد دوسرا تماشہ ہی تصور کر رہے ہیں۔ یہ افسوسناک تماشہ پاکستان کے عوام کے لئے نیا نہیں ہے۔ سینیٹ کے ہر انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں سینیٹ کے ایک انتخاب میں سینیٹر گلزار خان مرحوم نے خیبرپختونخوا اور فاٹا سے سرمائے کی طاقت سے اپنے خاندان کے لئے سینیٹ کی تین نشستیں جیت لیں، یہ تاریخ ساز ریکارڈ ابھی تک اور کوئی نہیں توڑ سکا۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات کی روشنی میں اپنے ایک بیان میں یہ کہہ کر پاکستان کے عوام کو حیران اور ششدر کر دیا ہے کہ سینیٹ کی نشست کے لیے 70 کروڑ روپے کی بولی لگ چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی سیاسی لیڈر نے جمہوری نظام کی اصلاح کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سیاستدان قوم سے وعدے تو بہت کرتے رہے مگر جب وہ عوام کے ووٹ لے کر اقتدار میں آتے رہے تو انہوں نے سیاسی اور جمہوری نظام کو بہتر بنانے کے لئے کوئی قانون سازی نہ کی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاست اور جمہوریت مسلسل زوال پذیر ہیں اور عوام کا اعتماد ہی موجودہ جمہوری نظام سے اُٹھتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے بانی اور محسن قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام کے بارے میں کچھ بنیادی اصول بتائے تھے جن پر اگر عمل کیا جاتا تو آج اس قدر شرمناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ قائداعظم نے 14 فروری 1948ء کو سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"Our almighty has taught us that our decisions in the affairs of the state shall be guided by discussions and consultations"
ترجمہ:’’ ہمارے خدا نے ہمیں سکھایا ہے کہ ریاست کے امور کے فیصلے بحث اور مشاورت کی روشنی میں کیے جائیں گے‘‘
پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں بحث اور مشاورت کا بنیادی جمہوری اصول ہی ختم ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈر عمومی طور پر سیاسی اور اقتدار کی مصلحتوں کے تحت فیصلے کرتے ہیں جن کے لئے مشاورت اور بحث کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس غیر جمہوری رویے کی وجہ سے سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سیاسی اور جمہوری نظام مستحکم نہیں ہو پاتا۔
1946ء کے انتخابات میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ صوبائی انتخابات کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے مداخلت کریں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتخابات میں کردار انتہائی اہمیت کا حامل تھا مگر قائداعظم نے صوبائی پارلیمانی بورڈ کے کام میں مداخلت سے انکار کردیا کیونکہ مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط ان کو اجازت نہیں دیتے تھے۔ قائد اعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو جواب دیا کہ اگر ان کو صوبائی بورڈ کے فیصلے سے اختلاف ہو تو ان کے امیدوار مرکزی پارلیمانی بورڈ میں اپیل کر سکتے ہیں جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
Ahmed Saeed :A Bunch of Letters
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس جمہوری اصول پر عمل نہیں کرتیں وہ صوبائی پارلیمانی بورڈ تشکیل نہیں دیتیں اور نہ ہی مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دئیے جاتے ہیں، البتہ اپنی پسند کے وفادار پارٹی لیڈروں کو جمع کر کے فیصلے کر لئے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نئے پاکستان کی دعویدار جماعت تحریک انصاف نے سینیٹ کے انتخابات کے لئے امیدواروں سے درخواستیں ہی نہیں مانگیں اور نہ ہی صوبائی اور مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دئیے۔ تحریک انصاف نے بلوچستان سے بزنس مین عبدالقادر کو سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا جس کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کے خلاف نیب کا ریفرنس بھی زیر سماعت ہے۔ اسی طرح کراچی سے فیصل واوڈا کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا گیا جن کی دوہری شہریت کی بنا پر کیس الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے اور ان کی نااہلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ جب انہوں نے 2018ء کے انتخابات سے پہلے نامزدگی پیپر فائل کئے تھے تو انہوں نے اپنی دوہری شہریت کو پوشیدہ رکھا تھا جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ جمہوری اصولوں سے انحراف کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کو پارٹی کارکنوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس احتجاج کی روشنی میں انہوں نے سینیٹ کی ٹکٹوں کے بارے میں نظرثانی کرنے کا اعلان کر دیا۔ اگر جمہوری اصول پر عمل کیا جاتا تو تحریک انصاف کے لیڈروں کو ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ سیاستدان سیاسی فیصلے پارلیمنٹ میں کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں، سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں پاکستان کی عدلیہ فیصلہ کرے گی کہ سینیٹ کے انتخابات سیکرٹ بیلٹ سے یا اوپن بیلٹ سے ہوں گے۔ پارلیمنٹ کی نااہلی اور خراب کارکردگی کے باوجودسیاستدان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بالادست ادارہ ہونا چاہیے۔ وہ آج تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکے کہ بالادستی ہمیشہ کارکردگی سے ملتی ہے پارلیمنٹ کو عوام کا اعتماد ہی حاصل نہ ہو اور پارلیمانی سیاسی ادارے بازیچہ اطفال بن کر رہ جائیں تو پارلیمنٹ کا وقار اور بالادستی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات اس سیاسی موڑ پر ہو رہے ہیں، جب پی ڈی ایم نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ پی ڈی ایم کے سیاسی رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں حکمران جماعت کو شکست ہوگی جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا جو ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک کے بارے میں جہاں سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہو اور جمہوری روایات کمزور ہوں اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ تماشہ کے بارے میں چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
تماشہ اپنا سر راہ گزر بنایا جائے
جو راہزن ہے اسے رہبر بنایا جائے
زندگی تجھ کو بھی اور تیرا تماشہ دیکھوں
اپنی معصوم سی آنکھوں سے میں کیا کیا دیکھوں
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024