پاکستان نے کبڈی ورلڈکپ جیت کیا، ہزاروں کا کراؤڈ پنجاب سٹیڈیم میں موجود تھا۔ لوگ روایتی حریفوں کے مابین ہونے والے اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی کے ساتھ سٹیج پر موجود تھے۔یہ وہی گورنر صاحب ہیں جو کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں کے لیے بھی آواز اٹھاتے ہیں اور اسی لاکھ مسلمانوں کو قید بنانے والے ملک کی کبڈی ٹیم کو گورنر ہاؤس مدعو بھی کرتے ہیں وہاں گانے بھی بجائے جاتے ہیں، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں اور پھر گورنر صاحب اس ملک کی ٹیم کا فائنل دیکھنے کے لیے میدان میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک طرف کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی دکھائی جاتی ہے تو دوسری طرف بھارت کے لیے راستے کھولے جاتے ہیں۔ امام صحافت، معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر دیے جائیں کیا آج حکومت کو جناب مجید نظامی کے الفاظ یاد ہیں۔ ایک طرف پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے عین اسی مہینے بھارتیوں کو کبڈی ورلڈکپ کے لیے پاکستان داخلے کی جازت دی جاتی ہے۔ کیا پاکستانی کھلاڑیوں کو اسی آزادی کے ساتھ بھارت جانے کی اجازت ملتی ہے۔ ایک طرف وہ ابھینندن کو فضائی حملے کے لیے بھیجتے ہیں دوسری طرف حکومت انہیں یہاں کبڈی مقابلوں میں شرکت پر پھولوں میں لاد دیتی ہے۔ ایک طرف کشمیریوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے، ایک سو ستانوے روز سے کرفیو اور لاک ڈاؤن جاری ہے۔ آج بھی روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر شائع ہونے والا اشتہار یہ یاد کروا رہا ہو گا کہ کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کیے کتنے روز گذر چکے ہیں۔ آج ناشتے کی میز پر یقیناً حکمران کبڈی ورلڈکپ کی خبر کے ساتھ وہ اشتہار بھی ضرور دیکھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ کس سمت میں جا رہے ہیں۔ قوم کو کیا سبق دے رہے ہیں اور کشمیریوں کا کیا پیغام دے رہے ہیں۔
کئی روز تک بھارتی ٹیم پاکستان میں رہی۔ ایک سے زائد شہروں میں میچز کھیلے گئے، بہترین سکیورٹی فراہم کی گئی، روایتی حریفوں کو خوش کرنے کے لیے اچھے انتظامات کیے گئے، پاکستان نے بھارتی ٹیم کی روایتی میزبانی کا حق ادا کیا، میڈیا نے بھرپور کوریج دی، سوشل میڈیا پر بھی سرگرمیوں میں تیزی دکھائی دی۔ یہ سب مشق اس دوران نظر آ رہی تھی جب ایک طرف بھارت میں شہریت بل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ شہریت بل کے نام پر جو سلوک مسلمانوں سے کیا گیا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں اور اس بل میں جس انداز سے مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے اس سے بھارت کی متعصب ہندو انتہا پسند حکومت کی مسلمانوں کے بارے سوچ، اقدامات اور مستقبل کو سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری باقی نہیں رہتی۔
عالمی کپ کبڈی ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم کی شرکت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کشمیر میں ایک سو ستانوے روز سے ظالمانہ کرفیو اور لاک ڈاؤن جاری ہے، رابطے اور معلومات کے ذرائع پر پابندی ہے، کشمیریوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔ کئی ہفتوں سے نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی ہے، اس دوران نماز جمعہ کے لیے نکلنے والوں پر تشدد کیا گیا، عاشورہ کے جلوسوں پر لاٹھی چارج کیا گیا، آنسو گیس استعمال کی گئی۔ اس عرصے میں طاقت کا بدترین استعمال کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان کی تقریر کی مثالیں دی گئیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم بھارتی کبڈی ٹیم کے آگے بڑھے بچھے جا رہے ہیں۔ یہ بھنگڑے، رقص، اچھل کود کشمیریوں کی قبروں پر ہو رہا ہے، ان کے خون کی قیمت پر ہو رہا ہے اور صرف کشمیر ہی نہیں ہزاروں پاکستانیوں کو بھارتی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کے امن کو تباہ کرنے میں جو کردار بھارت نے ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا کلبھوشن جادیو سے بڑی مثال کی ضرورت ہے۔ دوہزار نو میں اسی نشتر پارک کے باہر سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے پیچھے کون تھا، بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے اور ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے اور ہم اس پر پھول برسارہے ہیں۔
سب کچھ چھوڑ دیں بھارتی کرکٹ بورڈ کا رویہ دیکھ لیں، کیا وہ پاکستان کے ساتھ باہنی سیریز کی بحالی میں سنجیدہ ہے وہ تو شیڈول ایشیا کپ پاکستان میں نہیں کھیلنا چاہتے۔ گذشتہ دس برسوں میں جتنی بڑی تعداد میں بھارت نے پاکستان کے کھلاڑیوں کو ویزہ دینے سے انکار کیا ہے اس کے بعد کبڈی ورلڈکپ دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس پر ماتم کیا جائے یا خوشی کا اظہار کیا جائے۔
پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منا کر اسی ہفتے بھارتی کبڈی ٹیم کا استقبال کر کے ہم کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہ بم دھماکے جس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا ان دھماکوں میں شہید ہونے والوں کے گھر والے جب اس قسم کے پروگراموں کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں پر کیا گذرتی ہو گی۔ وہ جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے سب کچھ لٹایا، پھر جنہوں نے سقوط ڈھاکہ دیکھا، پھر جنہوں نے بھارت کے ہاتھوں ملک کا امن تباہ ہوتے اور پانچ اگست دو ہزار انیس کو کشمیریوں پر مسلط کیا جانے والا کرفیو اور لاک ڈاؤن دیکھا ہے وہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ سب کیا ہے؟؟؟
ہم کب تک دو کشتیوں میں سوار رہ کر خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔ کھیل میں سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ فلسفہ دونوں ملکوں پر لاگو ہوتا ہے۔ کھیل قوموں کو قریب لاتے ہیں لیکن بھارت تو ہمیں تسلیم ہی نہیں کرتا پھر دور اور قریب کی بحث تو کہیں دور ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کشمیریوں پر جاری ظلم و ستم، کرفیو اور لاک ڈاؤن کے دور میں کبڈی ورلڈکپ میں بھارت کی شرکت شہدا کے خون کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جب وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات نہیں رکھنا چاہتے تو ہمیں بچھے جانے کی کیا ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024