پیر ‘ 22 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 17 ؍ فروری 2020 ء
وزیر اعظم کے دورہ سیف سٹی اتھارٹی پر شہباز شریف کی شاعرانہ طنز
چھوٹے میاں کے شاعری سے شغف سے سب واقف ہیں۔ وہ اکثر جوش خطابت میں شعر سناتے ہوئے سٹیج پر زلزلہ کی کیفیت برپا کر دینے کے ماہر ہیں۔ ان کے پُرجوش انداز سے شعر کے ختم ہوتے ہی تمام مائیک بھی تھرتھراتے ہوئے ان کے ہاتھ کے ایک ہی حملے میں زمین چاٹتے نظر آتے ہیں۔ وہ اکثر انقلابی قسم کے شعر پڑھ کر خود کو انقلابی ثابت کرتے ہیں۔ طنزیہ شاعری کے حوالے سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی ان کو ازبر ہے۔ اب خدا جانے یہ لندن کی نرم گرم زمستانی ہوائوں کا اثر ہے یا وہاں کے موسم کی ادا ہی ایسی ہے کہ میاں شہباز شریف بھی طنزیہ انداز میں وزیر اعظم پر برس پڑے ہیں۔ معلوم نہیں وزیر اعظم ان کے اس طنزیہ شاعرانہ بیان پر جزبز ہوتے ہیں۔ کوئی جواب دیتے ہیں یا صرف ہنس کر مسکرا کر بات ٹال دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے گزشتہ روز دورہ لاہور میں سیف سٹی اتھارٹی کا دورہ کیا۔ اس کی تصویر دیکھ کر میاں صاحب کے جذبات بھڑک اُُٹھے اور انہوں نے اس پر
وہ جو کترا کے گزرتا تھا میرے سائے سے
اب سُنا ہے میرے نقش قدم ڈھونڈتا ہے
طنزیہ قسم کے شعر کے ساتھ تبصرہ کیا۔ ویسے میٹرو بس، اورنج ٹرین کی طرح سیف سٹی اتھارٹی کے بھی پی ٹی آئی والے کیڑے نکالتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے اس کے بعد اگر وزیر اعظم وہاں جائیں گے تو لوگوں کا حافظہ انہیں بہت کچھ یاد کرائے گا۔ جو ہوا سو ہوا یہ ایک اچھا منصوبہ ہے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے تو وہاں جا کر وزیر اعظم نے اچھا کیا۔ ایسے منصوبوں کو جاری رہنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
ٹڈی دل نے ملک کا بڑا حصہ تباہ کر دیا ہے۔ خسرو بختیار
فی الحال تو ایسی خبر عالمی ادارہ خوراک نے ان افریقی ممالک کے حوالے دے دی ہے جہاں سے اس ٹڈی دل نے جنم لیا ہے۔ ان کے بارے میں الرٹ جاری ہوا ہے کہ وہاں آئندہ خوراک کی قلت ہو سکتی ہے۔ قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ بھارت ٹڈی دل کے حملے سے متاثر ہوا ہے مگر ابھی تک وہاں کی بھوکی ننگی حکومت نے اپنے غربت کے مارے کو ڈرانے کے لیے ایسی خطرناک پیشنگوئی نہیں کی جو ہمارے ایک وفاقی وزیر جن کا گندم اور آٹا کی تجارت میں بڑا نام ہے، وہ کر رہے ہیں۔ کاشتکار اور کسان اس وقت روایتی طریقے سے ڈھول بجا کر شور مچا کر اس آفت کا مقابلہ کر رہے ہیں انہیں بھگا رہے ہیں۔ کئی مقامات پر ادویات کا سپرے بھی ہو رہا ہے۔ حکومت نے جو طیارہ سپرے کے لئے دیا وہ قریب المرگ تھا سو خود بھی گر کر تباہ ہوا ساتھ ہی دو افراد کی بھی جان لے بیٹھا۔ اب وفاقی وزیر لگتا ہے کافی سیانے ہیں ویسے بھی پنجابی کی مثال ہے ’’جنہاں دے گھر دانے اونہاں دے بال وی سیانے‘‘ سو خسرو بختیار نے مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے ابھی سے خوراک کی قلت یا قحط کی منظر کشی شروع کر دی ہے تاکہ جب گندم اور آٹے کے ریٹ بڑھیں تو عوام اسے حکومت کی ناقص کارکردگی نہیں ٹڈی دل کا حملہ سمجھ کر صبر سے کام لیں۔ چینی کے بحران پر بھی یہی کہا گیا تھا کہ گزشتہ سال گنے کی فصل اچھی نہیں ہوئی تھی سو اب گندم پر ٹڈی دل کا حملہ کا بہانہ ہو گا تاکہ آٹا مہنگا ہو۔
٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کو یقین دہانی کس نے کرائی
بات تو ہے ہی تجسس کی کہ مولانا کو یہ حکومت کے جانے یا گرانے کی یقین دہانی کرائی تو کرائی کس نے ہے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کوئی بات ایویں شیویں تو کرنے سے رہے۔ اوپر سے وہ ایسا انداز بیان اختیار کئے ہوئے ہیں جس سے ہزار شکوک و شبہات خودبخود پیدا ہو رہے ہیں، کبھی وہ کسی کو راز نہ کھولنے کا کہتے ہیں تو کبھی کسی یقین دہانی کا ذکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ حکمرانوں کے دل کانچ سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ کانوں کے کچے تو وہ ہوتے ہی ہیں، اسی لئے ہر بات پر کان دھرتے ہیں اور ساتھ ہی اسے دل پر لے بیٹھے ہیں۔ اب کہیں مولانا جان بوجھ کر ایسی باتیں کر کے کہیں حکومت کا ’’تراہ‘‘ تو نہیں نکال رہے۔ مولانا نے اگر ایک بار پھر مارچ یا تحریک کا بیڑا اٹھایا ہے تو لگتا ہے کچھ دیکھ کر ہی اٹھایا ہو گا۔ ورنہ پہلے مارچ کی ناکامی کے بعد کوئی اور ہوتا تو مارچوں اور تحریکوں کی سیاست سے توبہ تائب ہو کر بیٹھ جاتا مگر مولانا ابھی تازہ دم دکھ رہے ہیں۔ جواب میں حکومت بھی پرعزم ہے اور سابقہ روئیے کے برعکس اس بار احتجاج کرنے والوں کو ٹف ٹائم دینے کا سوچ رہی ہے۔ دیکھتے ہیں تازہ دم اور پرعزم کے اس مقابلے میں جیت کس کی ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
کراچی نیشنل سٹیڈیم میں نوعمر بچے کی موٹر سائیکل سمیت آمد شعیب ملک کے ساتھ سیلفی بنائی
آفرین ہے اس کرکٹ کے دیوانے کم عمر بچے پر جو کراچی جیسے ٹریفک کے اژدھام والے شہر میں موٹر سائیکل چلاتا ہوا نیشنل سٹیڈیم پشاور زلمی کے کرکٹروں کو پریکٹس کرتے دیکھنے کے لیے آن پہنچا۔ نہ ٹریفک وارڈنز کی نظر اس پر پڑی نہ کسی اشارے پر اسے روکا گیا۔ چلیں یہ تو روایتی طرز عمل ہے ہماری ٹریفک پولیس کا کہ وہ چاہے تو سائیکل سوار کو غلط چلنے پر روک کر اس کی ہوا نکال دے۔ یا چاہے تو ٹرالر کو خلاف قانون کسی مصروف شاہراہ پر چلنے سے نہ روکے۔ مگر یہ سٹیڈیم کے سکیورٹی اہلکاروں کو کیا ہوا۔ وہ کہاں سو گئے تھے۔ بچے کو سٹیڈیم میں موٹر سائیکل سمیت اندر جانے کیسے دیا گیا۔ کیا یہ بات خطرناک ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر کوئی دہشت گرد ہوتا تو کیا ہوتا۔ بہرحال یہ منچلا شعیب ملک کا پرستار تھا۔ اس سے ملا اس کے ساتھ سیلفی بنائی۔ شاباش ہے شعیب ملک پر جنہوں نے اس کم عمر سوار کو آئندہ موٹر سائیکل چلانے سے منع کیا اور احتیاط کا مشورہ دیا۔ خدا کرے اب یہ لڑکا اپنے سٹار کے مشورے پر عمل کرے اور اس خطرناک مشغلے سے دور رہے۔ جب بڑا ہو تو پھر بے شک بائیک چلائے یا جہاز اسے کوئی نہیں روکے گا۔
٭٭٭٭٭