اتوار‘11؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 17 ؍ فروری 2019ء
فیاض الحسن کے کمرے سے ہڈیاں برآمد ہونے کی تحقیقات کرائی جائیں: پیپلزپارٹی
یہ خبر تو ویسے ہی خوفناک قسم کی ہے کہ پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کے کمرے سے ہڈیاں برآمد ہوئی ہیں۔ اب معلوم نہیں یہ ان کی ہی رات کو کھانے کے بعد پھینکی اور چبائی ہوئی ہڈیاں نہ ہوں ورنہ ان کے کمرے میں کون گھس سکتا ہے۔ اگر یہ واقعی جادو ٹونے کا معاملہ ہے تو یہ ضرور ان کے کسی اپنے قریبی کی کارستانی ہو سکتی ہے۔ اب انہیں خود دیکھنا ہوگا کہ ان کے اردگرد کوئی دشمن تو نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ ضرور کسی بل بتوڑی‘ ناساں چوڑی چڑیل کی کارروائی ہو سکتی ہے جو فیاض الحسن چوہان سے ذاتی پرخاش رکھتی ہے۔ اب کھل کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئی ہے یا پھر ان کا اپنا کوئی زکوٹا جن بے قابو ہو گیا ہوگا جو پہلے ہی میں کیا کروں‘ کوئی کام بتائو‘ میں کس کو کھائوں کا رولا ڈالے اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا‘ اب اور کچھ نہیں ملا تو وہ اپنے آقا کو ہی ڈرانے کے درپے ہو گیا ہے۔ مگر خطرے کی کوئی بات نہیںکیونکہ فیاض جی کہتے ہیں کہ اللہ میاں نے انہیں ایک بڑا زبردست جن دیا ہوا ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی جن کچھ نہیں کر سکتا۔ اب یہ ان کا اشارہ جس طرف ہے اگر انہیں معلوم ہو گیا کہ فیاض الحسن نے انہیں جن کہا ہے تو پھر کہیں وہ طیش میں نہ آجائیں کیونکہ ان کے چاہنے والوں کے نزدیک وہ تو پرستان کے شہزادے ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس جدید دور میں بھی ہمارے لیڈر دور جہالت سے باہر نہ نکل سکے۔ یہ اب بھی جادو ٹونے‘ جنتر منتر اور کالے علم پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا یہ حال ہے تو عوام بے چاروں کا پھر خدا ہی حافظ ہے۔ اب حکومت کسی عامل کامل یا روحانی پیر سے پتہ لگائے کہ فیاض الحسن پر یہ کالا جادو کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔ ان کے کمرے میں یہ ہڈیاں کہاں سے آئیں۔ اگر ایسے ہی ہڈیاں کسی غریب کے کمرے یا گھر سے ملی ہوتیں تو اب تک پولیس اس پر قتل کرکے لاش چھپانے کا پرچہ درج کر چکی ہوتی۔
٭٭…٭٭…٭٭
دبئی میں بی ایس ایل کی افتتاحی تقریب
میں سابق صدر مشرف کی شرکت
ایک طرف ہماری عدالتیں اشتہار پر اشتہار دے کر اور شوروغوغا جاری کرکے تھک رہی ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف حاضر ہوں مگر وہ ہیں کہ یہ سارا واویلا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال رہے ہیں۔ عدالتوں کے ہر حکم کے جواب میں ان کی طرف سے تازہ ترین میڈیکل سرٹیفیکیٹ لے کر ان کے وکلاء انہیں پاکستان کا سب سے زیادہ سیریس مریض قرار دیتے اور ان کو طلبی سے مبرا قراردینے کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ عجیب بیماری ہے جو عدالتوں کی طلبی پر تو سرعت کے ساتھ عود کر آجاتی ہے مگر جیسے ہی کوئی ذاتی تقریب ہو شادی بیاہ ہو یا کھیل کا میدان وہاں ہمارے یہ سابق کمانڈو صدر اچھلتے کودتے اٹکھیلیاں کرتے‘ ستار اور تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ چھپ کر نہیں کرتے کھلم کھلا کرتے ہیں اور میڈیا میں دکھایا بھی جاتا ہے۔گزشتہ دبئی میں جاری پاکستان سپرلیگ کے افتتاح کے موقع پر سابق صدر کی جو تصویر میڈیا پر آئی ہے اس میں وہ نہایت آرام کے ساتھ احسان مانی چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہمراہ تقریبات میں رنگوں کی برسات اور سازو آواز کے جادو سے دل بہلاتے نظر آ رہے ہیں ۔وہاں تو قریب ہی کوئی اسٹریچر نظر آ رہا تھا نہ ہی کوئی وہیل چیئر اور نہ ہی ان کی گردن پر کوئی کلف تھا۔ نہ کمر پر بیلٹ ۔وہ بڑے آرام سے بیٹھے لگ رہے تھے۔ ان حالات میں جب وہ ٹھیک ٹھاک ہیں نجانے کیوں ملک واپسی سے خوفزدہ ہیں حالانکہ وہ خود کو کمانڈو قرار دیتے ہیں اور کسی سے ڈرتا ورتا نہیں کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ حکومت میں تو اتنی طاقت نہیں لگتی کہ وہ انہیں دوسرے مطلوب ملزموں کی طرح پکڑ کر وطن واپس لائے کیونکہ بہت سے لو گوں کو پکڑنے والی ہتھکڑیاں ابھی بنی نہیں ہیں۔
٭٭…٭٭…٭٭
پشاور انتظامیہ نے منگل
اور بدھ کو گوشت کا ناغہ ختم کر دیا
یہ تو پشاور کی انتظامیہ کا نہایت عجیب فیصلہ ہے۔ ملک بھر میں یہ ناغہ اس لئے کیا گیا تھا کہ جانوروں کی تعداد میں بھی کمی نہ آئے مگر عرصہ دراز سے بعض افلاطونی دماغ والے خود کو سامری و ہامون جادوگر کے نائب سمجھنے والے فارغ الدماغ لوگ یہ مطالبہ بھی کرتے آ رہے ہیں کہ منگل کو گوشت ختم کرنے سے ملک میں جو پریشانی چل رہی ہے۔ حالات خراب رہتے ہیں وہ ختم ہو جائیں گ۔ کیونکہ اس روز سے منسوب سیارے مریخ پر خون بہانے سے مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اب آج کل چونکہ ملک بھر میں روحانی علوم کچھ ضرورت سے زیادہ عام ہیں۔لوگوں کو جانتے بوجھتے اس طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ اوروں کی تو بات چھوڑیں ہمارا میڈیا تک ایسے ایسے لغو پروگرام پیش کرتا ہے کہ عام سامعین تک جادو ٹونوں سے متاثر نظر آنے لگتے ہیں۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں مگر جس بات کا خطرہ ہے وہ ہے پشاور کے بعد کہیں ملک بھر میں یہی فیصلہ عام نہ ہو جائے ۔اس کا سب سے بڑا خطرہ کیا ہوگا اس کا نتیجہ جلد ہی پشاور میں سامنے آنے والا ہے جہاں پہلے ہی کھانے پینے کی بڑھتی ہوئی دکانوں کی وجہ سے شہر اور اس کے اردگرد سے آوارہ کتے اور گدھے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ حرام خور ہوٹل والے انہیں بکرے اور گائے بنا کر ان کا گوشت بنا کر معصوم گوشت خوروں کے پیٹ میں پہنچاچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہی پشاور میں ایک ہوٹل سے 700 ذبح شدہ کتے اور ان کا گوشت بطور مٹن کڑاہی پکڑا جا چکا ہے۔ اب کھانے یا گوشت خریدنے والوں کو کیا پتہ کہ گوشت کس کا ہے جو وہ لے رہے ہیں یا کھا رہے ہیں۔ سروے کی ٹیمیں تو پہلے ہی جی ٹی روڈ اور موٹروے کے اردگرد سے گدھوں ‘ کتوں‘ کوئوں اور چیلوں کی تعداد پراسرار طریقے سے کم ہونے پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں جہاں قدم قدم پر ا انگریزی‘ پنجابی اور پٹھانی کھانوں والے ہوٹلوں کے اشتہار بھوک بڑھانے کے لئے نظر آتے ہیں۔
٭٭…٭٭…٭٭
اسلام آباد میں چینی شہری اے ٹی ایم سے پیسے چراتے گرفتار
ہمارے یہ محترم چور پچھلے ماہ ہی پاکستان تشریف لائے تھے۔ ابتدائی واردات میں انہوں نے سوا دو لاکھ روپے اے ٹی ایم مشین توڑ کر چوری کئے تھے۔ یہ ایک اچھی شروعات تھی اگر وہ چند دن کچھ اور اے ٹی ایم مشینیں توڑنے میں کامیاب رہتے تو امید تھی کہ وہ دس یا پندرہ لاکھ روپے جمع کر ہی لیتے مگر بُرا ہوا اس گردش ایام کا کہ وہ دھر لئے گئے۔ یہ کوئی پہلی یا نئی واردات نہیں اس سے پہلے بھی کراچی میں ہمارے محترم چینی چور کہہ لیں یا اے ٹی ایم مشینوں کو آلات کی مدد سے توڑنے یا کھول کر اس میں رقم چوری کرنے کی متعدد وارداتوں میں ملوث چینی ماہرین اور ان کے کچھ پاکستانی کارندے پولیس کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ کئی بہادرچینی ماہرین تو یہ کام کرنے خود اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ آ جاتے ہیں۔ لگتا ہے چینی چوروں نے پاکستان کو دبئی سمجھ لیا ہے جہاں دولت برستی ہے‘ اس سے بہت سے پاکستانیوں کو بھی شہ مل رہی ہے کہ وہ بھی اے ٹی ایم توڑنے کے کورس میں شرکت کے لئے پہلی فرصت میں چائنا جائیں اور وہاں سے یہ علم حاصل کریں۔ ویسے پاکستان میں بھی اس فن کے بہت سے ماہر موجود ہیں مگر ان میں ابھی کھل کر وارداتیں کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ وہ ہماری پولیس کی مہمان داری سے بخوبی واقف ہیں اس لئے ذرا بچ کر رہتے ہیں ۔ لگتا ہے یہ چینی اس گمان میں ہیں کہ پاکستانی پولیس انہیں پاک چین دوستی کے جذبہ خیر سگالی کے تحت کچھ نہیں کہے گی اور چھوڑدے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یا انہیں بھی پاکستانی پولیس روائتی تفتیشی طریقوں کے ساتھ تھانوں میں خوش آمدید کہے گی۔
٭٭…٭٭…٭٭