آلودہ پانی ایک سنگین مسلئہ
ڈاکٹر محمد عرفان چودھری
پاکستان میں متعدد سنگین امراض اور ناگہانی اموات کی ایک بہت بڑی وجہ آلودہ پانی ہے جسے پینے سے لوگ پیٹ‘ جلد‘ جگر اور دیگر مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ پانی میں فلورائیڈ کی بڑھی ہوئی مقدار کے سبب لاحق ہوتی ہے۔ آلودہ پانی کے سبب جوڑوں کا درد اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آنکھوں اور جلد کے بہت سے مسائل کا بھی آلودہ پانی سے تعلق ہے۔پاکستان میں ڈائیریااور گیسٹرو کے سالانہ دس کروڑ کیسز ہوتے ہیں۔ گیسٹرو اور ڈائیریا زیادہ تر بچوں میں پایا جاتا ہے۔ گیسٹرو کے مریض آنتوں کی سوزش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں امراض چھوٹے بچوں‘ بوڑھوں‘ دل اور گردے کے مریضوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں چالیس فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہی ہے۔ آلودہ پانی پولیو وائرس کے پھیلانے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔مالیاتی لحاظ سے ملک کو گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ ایک سو بارہ ارب روپے جبکہ صحت کی خرابی اور آمدنی میں کمی سے روزانہ تیس کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کے صرف پندرہ فیصد شہری اور اٹھارہ فیصد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ توجہ طلب بات ہے کہ یہ آبِ حیات زہر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کو یہ سنگین مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 70 فیصد سے زائد آبادی جو دیہاتوں اور کچی آبادیوں میں رہتی ہے ان کے لئے اپنے مالی حالات کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ وہ فلٹر شدہ یا ابلا ہوا پانی پی سکیں۔ صاف پانی صحت مند معاشرے کی اولین اور بنیادی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پینے کے پانی کے حوالے سے کچھ تلخ حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ نعمت ملک کے بیشتر علاقوں میں صحت کے لئے غیر محفوظ تصور کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پینے کے لئے دستیاب پانی صحت کے لئے مضر ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں موجود پینے کے پانی کا نظام بہت پرانا ہے اور یہ کافی حد تک آلودہ ہو چکا ہے۔ کثیر تعداد میں جوائنٹ‘ پرانے اور زنگ آلود پائپ لائن کی وجہ سے بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم آسانی کے ساتھ اس پینے کے پانی میں مل جاتے ہیں۔ ملک میں پانی کے سٹوریج یا ٹینکیوں کی صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور اس میں 40 فیصد بچوں کی اموات‘ جن کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں‘ وہ بھی اس آلودہ پانی کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔پاکستان میں اکثر ڈسٹری بیوشن لائنز کا گزر گندی نالیوں یا نہروں سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پانی کی ڈسٹری بیوشن پائپ لائنز میں بہت سی جگہوں پر لیکجز ہیں تو اس میں اکثر اوقات بارش یا سیوریج کا پانی داخل ہو جاتا ہے اور اس کو مزید آلودہ بنا دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس‘ ٹائیفائیڈ‘ ڈائریا‘ گیسٹرو سمیت پیٹ اور گلے کی بہت سی مختلف بیماریوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ جراثیمی بیماریاں بالخصوص آنتوں کی سوزش‘ قبض اور بواسیر پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ گندا پانی ہے اس لئے نلکوں کے پانی کو خطرے سے خالی نہ سمجھا جائے۔آلودہ پانی انسانوں کا بہت بڑا قاتل ہے۔ ہر سال تیس لاکھ پاکستانی آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بارہ لاکھ انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں دو لاکھ پچاس ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی سے اسہال اور دیگر جراثیمی بیماریوں کی شرح میں خاطرخواہ کمی آ سکتی ہے۔ دیہات میں ندی نالوں‘ کنوؤں اور جوہڑوں کے پانی میں کسی نہ کسی طرح جانوروں کا فضلہ‘ پیشاب اور زمینی غلاظت شامل ہو جاتی ہے اس لئے ایسا پانی بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ اس گندے پانی سے نظام ہضم کی کئی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ انتڑیوں کی سوزش‘ بدہضمی‘ گیس‘ معدے کا السر‘ اپھارہ‘ اسہال اور جوڑوں کا درد جیسے امراض بھی گندا اور ناقص پانی پینے سے لاحق ہو سکتے ہیں۔