صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور اورہارٹ سرجن ڈاکٹر اجمل حسن نقوی
فرزانہ چودھری
صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور اورہارٹ سرجن ڈاکٹر اجمل حسن نقوی کارڈیک، واسکولر اور تھراسک سرجری میں مہارت رکھتے ہیں۔ان کا شمار پاکستان کے چندا یک معروف کارڈیک ، واسکولرتھراسک سرجنز میں ہوتا ہے۔ وہ کارڈیک ،تھراسک سوسائٹی کے ممبر ہیں۔ انہوں نے رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آئرلینڈ سے سرجری میں فیلوشپ کی اور وہاں کے ہسپتالوں میں ایک عرصہ تک کام کر کے کارڈیک، تھراسک سرجری، ہارٹ ٹرانسپلانٹ، بچوں کی ہارٹ سرجری، واسکولر سرجری اور اوپن ہارٹ سرجری میں مہارت حاصل کی۔وہ کالج آف فزیشن آف سرجری کے سپروائز اینڈ ایگزامینر، UHS ایگزامینر، کارڈیک سرجری اور تھراسک سرجری کے ٹرینر اینڈ ایگرامینر سمیت پنجاب یونیورسٹی کا بھی ہیں۔ چودہ سال بیرون ملک رہنے کے بعد1997ء میں پاکستان آئے اور شیخ زید ہسپتال لاہورمیں ہارٹ سرجری کے بند یونٹ کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ہر قسم کی مشکل سرجری جس میں والوز کی تبدیلی ، بائی پاس، پدائشی دل کی بیماریاں، بڑی اور چھوٹیشریانیوںکی تنگی کی سرجری سمیت شوگر، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور پھیپھڑے کی خرابی کے مریضوں کی سرجری روٹین میں کرتے تھے۔ انہوں نے شیخ زید ہسپتال لاہور میں تھراسک سرجری کا آغاز کیا تھا۔ وہ تھراسک سرجری میں کینسر ، کینسر ٹیومر، چیسٹ والو کے ٹیومر اور بہت سارے کینسر کی سرجری میں مہارت رکھتے ہیں۔ کارڈیک، تھراسک اور واسکولر سرجن ڈاکٹر اجمل حسن نقوی نے بتایا ’’ ابھی تک پاکستان میں تھراسک سرجری اتنی ڈویلپ نہیں ہوئی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان سرجریز کے ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ گلاب دیوی ہسپتال میں بھی تھراسک سرجری صرف ٹی بی سرجری تک محدود ہے‘‘۔
انہوں نے بتایا’’ جب میں نے تھراسک سرجری شروع کی ان دنوں بہت کم سنٹرز میں تھراسک سرجری کی جاتی تھی جبکہ واسکولر سرجری روٹین میں ہوتی تھی۔ شیخ زید ہسپتال میںواسکولر سرجری ہماری سپیشلسٹی تھی اورایسے ڈائیلسز مریض جن کی شریانیں نہیں ملتی ہیں ان کا فسٹولا بنانے میں مہارت حاصل ہے ۔ میں نے پوری ایک ٹیم تیار کی جو ایک دن میں پانچ سے چھ ڈائیلسز مریضوں کو فسٹولا لگاتے تھے ۔ ہمارے پاس زیادہ تر پیچیدہ کیسز ہی آتے ۔ میرے شاگرد چلڈرن ہسپتال لاہور، پشاور ہسپتال ، ایبٹ آباد ہسپتال، سوشل سکیورٹی ہسپتال، یمن اور شام کے ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔ بچوں کے ابھری چیسٹ یا اندر گھسی چسٹ کے کامیاب آپریشن بھی کیے ‘‘۔
٭اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کیا ہیں؟
ج:اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کو عام طور پر مایو کارڈیال ایسکیمیا بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب Reduced Blood Supply جس میں بذات خود دل کو خون کم ملتا ہے۔ خون کی کم فراہمی کی وجہ Athorosclerosis ہے۔ جس کی وجہ سے کارنری آرٹریز تنگ ہو جاتی ہیں۔ جسم میں صرف کارنری آرٹریز یعنی خون کی نالیاں ہیں جو دل کو خون پہنچاتی ہیں۔ دل کو کام کرنے اور پورے انسانی جسم میں آکسیجن کی فراہمی کا ذریعہ خون ہی ہے۔ آرٹریز کے تنگ ہونے کی وجہ سے دل کو آکسیجن کم ملتی ہیجس کی وجہ سے دل کے پٹھے متواتر کام نہیں کر سکتے ۔اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کا خطرہ بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے اور یہ سگریٹ نوشی کرنے والے حضرات میں عام ہے۔ ذیا بیطس اور کولیسٹرول میں اضافہ اور ہائی بلڈ پریشر بہت سے مریضوں میں اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
٭اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کی علامات کیا ہیں؟
ج:اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کی سب سے بڑی علامت سینے میں دور ہے جو اکثر دل کے دورے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے مریض میں یہ بیماری سالوں سے چلی آرہی ہوتی ہے اور انجائنا یا درد کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ یہ درد سینے کی جکڑن یا سینے پر دباؤ کی طرح ہوتا ہے اور بعد میں بڑھتے بڑھتے بائیں بازو میں آ جاتا ہے۔ انجائنا اسکیمک ہارٹ سرجری کی ابتدائی علامت نہیں بلکہ Athorosclerosis انجائنا سے پہلے نہ جانے کن کن آرٹریز کو سخت تنگ کر چکا ہوتا ہے ۔ اگر مریض کو ذیابیطس کا مرض ہے اس میں انجائنا کی علامات کافی مختلف ہوں گی۔ کیونکہ ذیا بیطس کی وجہ سے اس کا نروس سسٹم کمزور ہو جاتا ہے ۔ اس لئے شوگر کے مریضوں کو عموماً سینے میں درد محسوس نہیں ہوتا بلکہ سینے میں دباؤاور سانس لینے میں دشواری، پسینہ آنا، گھبراہٹاور دل کا تیز دھڑکنا جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔اسکیمک ہارٹ ڈیزیز کی تیسری علامت مریض کا دل نارمل سائز سے بڑا ہو جاتا ہے۔اس بیماری کی چوتھی علامت پیری فیرل ایڈیما ہے۔ جس میں پیٹ، ہاتھوں اور ٹانگوں پر سوجن ہو جاتی ہے اور مریض کے جسم میں پانی اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور مریض کا وزن تیزی سے بڑھتا ہے۔ اس بیماری کی وجوہات میں موروثی، تمباکو نوشی،اَن کنٹرول شوگر،کولیسٹرول اور بلڈ پریشرسمیت موٹاپا،غذا میں بے احتیاتی ،بہت زیادہ چکنائی کا استعمال اورورزش نہ کرنا ہے۔
٭ہارٹ اٹیک کا علاج کیا ہے ؟
ج:ہارٹ اٹیک کا علاج انجیو پلاسٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اینجیو پلاسٹی میں بند شریان میں ایک سٹنٹ یا باریک تار ڈال کر شریان کو کھولا جاتا ہے اور خون کے بہاؤ کو بحال کیا جاتا ہے۔ ہارٹ اٹیک کی اور بھی علامات ہیں جیسے سینے میں درد یا دباؤ، ٹھنڈے پسینے ،انتہائی کمزوری ، جبڑے یا بازو میں درد، دونوں کندھوں کے درمیان میں درد، کمر میں درد، سانس لینے میں دشواری، بد ہضمی کی شکایت، دل کی دھڑکن بڑھ جانا اور متلیاں وغیرہ ہیں۔ ہارٹ اٹیک سے بچنے کے لئے سگریٹ نوشی مکمل ترک کریں۔ ہارٹ اٹیک کی صورت میں فوراً تین چار ڈسپرین کی گولیاں پانی میںحل کر کے پی لیں اور فوراً نزدیکی ہسپتال جائیں ۔ ہسپتال میں خون پتلا کرنے والی ادوایات کے استعمال اور پرائمری انجیوپلاسٹی سے کیا جاتا ہے۔
٭ بچوں کے دل میں سوراخ کی وجہ کیا ہوتی ہے؟
ج: چھوٹے بچوں کے دل میں سوراخ کی بہت سی اقسام ہیں۔ایک سادہ سوراخ جو دل کے رائٹ اور لیفٹ ایریا میں ہوتا ہے۔ اسکا آپریشن بہت سادہ ہے۔ دو ٹانکے لگتے ہیں اور یہ کام کوئی بھی سرجن کر سکتا ہے۔ اسی طرح ونٹریکلز کے درمیان سوراخ بھی آسانی سے بند کیا جاسکتا ہے۔ قدرے پیچیدہ کیسز کے رزلٹ پاکستان اور بیرون ملک تقریباً ایک جیسے ہیں اس کی کامیابی کا انصار سرجری کی نوعیت پر ہے۔
٭ تیسرے ہارٹ اٹیک کے بعد مریض کی موت واقع ہونے کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں؟
ج: دل کو تین شریانیں خون سپلائی کرتی ہیں۔ ایک شریان میں خون کی بندش کا مطلب کہ اس کے متعلقہ حصے میں خون کی سپلائی رک جائے گی تو وہاں پر اٹیک ہو گا۔ عموماً پہلا اٹیک ہی بہت خطرناک ہوتا ہے۔نوجوانوں میں تیسرا نہیں پہلا ہارٹ اٹیک زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔دل کے امراض اگر خاندان میں پائے جاتے ہوں تو عام آدمی کی نسبت ان میں ان بیماریوں کے ہونے کے پچاس فیصد چانسز زیادہ ہو جاتے ہیں ۔دل کے امراض کے بڑے رسک فیکٹرز میں سگریٹ نوشی، اَن کنٹرول ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر،ورزش نہ کرنا، خوراک میں چکنائی کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔ اگر ہم ان سب چیزوں کو کنٹرول میں رکھیں تو بیس بیس سال ان بیماریوں کو خود سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
٭ رومیٹک بخار کے دل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ج: والو کی بیماری کی ایک بڑی وجہ رومیٹک بخار ہے۔ اس میں بچے کو تیز بخار کے ساتھ جوڑوں میںدرد کی تکلیف ہوتی ہے لیکن اسکا مناسب علاج نہیں ہوا۔ وہ اس وقت تو ٹھیک ہو جاتا ہے مگر اس بیماری کے جراثیم دل کے والو کو جا کر لگ جاتے ہیںاور آہستہ آہستہ اتنا نقصان پہنچا دیتے ہیں کہ بیس، پچیس سال کے بعد مریض کوایک نیا والو ڈالنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ بچپن میں اگر اس قسم کا بخار ہو تو اس کا ٹھیک اور مکمل علاج کیا جائے۔ والوز کی بیماری کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں ہے۔
٭ بائی پاس کے بعد مریض کس حد تک نارمل زندگی گزارتا ہے؟
ج: وہ لوگ جن کا بائی پاس کیا جائے اور وہ پرانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوں تو اس میں بائی پاس سے وہ 80 فیصد تک نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔لیکن آئیڈیل لوگ جن کو بروقت علاج میسر آ جائے وہ سو فیصد فٹ ہو سکتے ہیں۔
٭ کون سا والو ڈالنا بہتر ہوتا ہے؟
ج: والوز Tataniumکے بنے ہوتے ہیں۔ ان کے والوز تاحیات چلتے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ مریض کو خون پتلا کرنے والی ایک گولی کھانی پڑتی ہے اور ٹیسٹ کے ذریعے خون پتلا کرنے والی دوائی کو ریگولری مانیٹر کرنا پڑتا ہے۔ دوسری قسم کے والو کو ٹشو والو کہتے ہیں۔ وہ گائے، بھیڑ اور انسان کے اپنے بھیPreserve کئے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ خون پتلا کرنے والی دوائی نہیں کھانی پڑتی۔ لیکن یہ دس پندرہ سال کے بعد خراب ہو جاتے ہیں اور دوبارہ آپریشن کرکے نیا والو ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ والو ہم ان مریضوں کو تجویز کرتے ہیں مثلاً جب بچی جوان شادی شدہ ہو اور اس کی فیملی مکمل نہ ہو۔جب وہ اپنی فیملی مکمل کر لے یعنی پندرہ سال کے بعد دوبارہ والو تبدیل کروا لے۔ بوڑھے مریضوں میں بھی یہی والو ڈالنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
٭بائی پاس کا جدید طریقہ عللاج کیا ہے؟
ج: آجکل نوے فیصد مریضوں کا بائی پاس بیٹنگ ہارٹ(ہارٹ اینڈ لنگزمشین کے بغیر) پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیمروں کی مدد سے چھوٹے کٹ لگا کر بائی پاس کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج سے مریض چند دنوں میں صحت یاب ہو کر گھر چلا جاتا ہے۔سادہ بائی پاس میں کامیابی کی شرح تقریباً سو فیصد ہے ۔ تاہم کچھ بائی پاس آپریشن پیچیدہ بھی ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے ناکامی کا خطرہ 2 سے 5 فیصد تک اور کچھ کیسز میں تو 50فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر بائی پاس سرجری ہارٹ اٹیک کے فوراً کرنی پڑے تویہ کافی بڑا اور خطرناک آپریشن ہوتا ہے
٭ ڈاکٹری کا پیشہ بھی کمرشل ہو گیا ہے؟
ج: میں اپنی بات کروں گا اور میرے جیسے بھی کئی اور ڈاکٹر ضرور ہوں گے ۔ میںچودہ سال بیرون ملک رہا ہوں جب پاکستان آیا تو میں نے اپنا گھر بنانے سے پہلے فیصل آباد جھنگ روڈ پر فری ہسپتال بنایا۔ جو ڈاکٹرز، LHV اور لیب کی تمام سہولیات سے آراستہ ہے۔ میں ہر ماہ کے پہلے اتوار کو وہاں میڈیکل کیمپ لگاتا ہوں۔ میرے ساتھ لاہور سے 30-35کے قریب پروفیسرز جاتے ہیں۔ہارٹ کے مریض دور دور سے آتے ہیں۔ فری ایکو، الٹرا ساونڈ، گردے ، کاردیو گرام اور ہارٹ کی سکریننگ، شوگر ٹیسٹ، کولیسٹرول ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ تمام مریضوں کے اخراجات برداشت کرتا ہوں۔ میرے عزیز اس نیک کام میں تعاون کرتے ہیں ۔