’’ٹائمنگ‘‘ کی اہمیت کویکسرنہ تونظرانداز کیا جاسکتاہے نہ ہی عالمی اورعلاقائی سطح پر کسی خاص ملک کوٹارگٹ کرکے اْس خاص ملک کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پردنیامیں من گھڑت اور بے بنیاد تاثرپھیلایاکر کسی’ خاص ملک‘ کے بارے میں یہ جھوٹاپروپیگنڈا کیا جائے کہ وہ ملک دنیا میں فروغ پانے والی دہشت گردی میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہا؟ 'خاص' ملک سے ہمارا اشارہ اپنے ملک ِپاکستان سے ہے یعنی دنیا کے کسی عالمی فورم پر'دہشت گردی کے خاتمہ کی بات تو کی جائے، مگردہشت کے خلاف میدان ِعمل میں اتر کر مسلح سفاک دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور دہشت گردوں کو بھگا بھگا کر موت کی نیند سلانے والے ملک ِپاکستان کی جرات مندانہ اور بے مثال قربانیوں کا ذکر تک نہ کیا جائے اِس کامطلب سوائے ِاس کے اورکچھ نہیں کہ تقریبا پندرہ بیس برسوں دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے میں مصروف پاکستانی افواج کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کے ثمرات پر پانی پھیر دیا جائے امریکی صدرٹرمپ نے اگست 2017 کوافغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی 'متنازعہ'پالیسی کا اعلان کیا جس کے فورا بعدامریکی سیکرٹری دفاع جمیزمیٹس نے پاکستان کا مختصر دورہ کرکے یہ جاننے کی اپنی سی کوشش کی کہ وہ دیکھیں کہ ٹرمپ کی نئی علاقائی پالیسی کے بارے میں پاکستان میں کیا ردِ عمل پایا جاتا ہے؟ جبکہ اکتوبر2017 میں امریکی سیکرٹری خارجہ مسٹرریکس ٹلرسن بھی پاکستان آئے اِن کی آمد اور سیکرٹری دفاع کی پاکستان آمد کے درمیانی عرصہ میں سی آئی اے کے ڈائریکٹرمائیکل پومپیو نے کیلی فورنیا میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران انتہائی دھمکی آمیز لہجے میں یہ بیان داغا کہ مسٹر میٹس پاکستان اِس لئے جارہے ہیں کہ پاکستان کو یہ باور کرایا جائے کہ'امریکا کا کہنا ماننا اْس کے اپنے مفاد میں ہے اور بہتر یہ ہے کہ وہ خود اپنی زمین پر واقع 'دہشت گردوں کی کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کردے ورنہ یہ کام ہمیں کرنا پڑے گا'ابتداء میں جیسے کہ راقم نے 'ٹائمنگ'کی اہمیت کی بات کی ‘ تو اِس کی وجہ یہ ہے چاہے امریکی سی آئی اے ہو یا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را'دونوں مسلم دشمن خفیہ ایجنسیاں ایک ہی پیچ پرایک ہی ٹیم کے کھلاڑی ہیں' دونوں کامطمع ِنظرایک'دونوں جنوبی ایشیا میں 'خاص مسلم ملک' دہشت گردی کے خلاف اب تک لڑی جانے والی پاکستانی افواج کی جان توڑ اورتاریخ سازجنگ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتیں'تسلیم کیوں نہیں کرتیں؟اْس کی ایک اہم ترین وجوہ یہ ہے کہ صدرٹرمپ کے جنوبی ایشیا کے لئے دئیے گئے پالیسی بیان کے بعد4 دسمبر 2017 کوسیکریٹری دفاع مسٹرمیٹس نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اْن کی ملاقات پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہوئی جس میں پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے مسٹرمیٹس پر بناء کسی لگی لپٹی کے بغیراُن پر یہ واضح کردیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناگاہیں نہیں ہیں، پاکستانی فوج نے آپریشن راہ ِنجات'آپریشن راہ ِراست' آپریشن ضرب ِعضب' آپریشن خیبرٹوکے علاوہ اب تک اپنا آپریشن ردالفساد جاری رکھا ہوا ہے، پاکستانی فوج کے سربراہ نے امریکی سیکریٹری دفاع پر کھلے لفظوں یہ بھی واضح کردیا کہ 'دہشت گردی اور پاکستان ایک ساتھ نتھی کرنے کی عالمی پالیسیاں اب تبدیل ہونی چاہئیں پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا اور دہشت گردی کا نام ونشان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ملیامیٹ کردیا جائے گا چاہے اِس عزم کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں کتنی ہی قربانیاں مزید کیوں نہ دینی پڑیں'مطلب یہ کہ پاکستانی قوم امریکی 'ڈومور' کے فرسودہ بیانیئے کو اب ماننے پر تیار نہیں ہے پاکستان کے پڑوسی دشمن ملک بھارت کوعلاقے میں جاری اپنی خفیہ سرگرمیوں کے ساتھ دہشت گردی کی خفیہ کارروائیاں بند کرنی ہونگی اب ذرا ملاحظہ فرمائیے'4 دسمبر کے فورا بعد 21 دسمبرجب پاکستان نے امریکی اعلیٰ سطحی یکطرفہ طرزِعمل کو ماننے سے انکارکردیا تونئی دہلی میں 'را' متحرک ہوگئی دنیا کو دھوکہ دینے اور عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے خفیہ منصوبہ کو روبہ ِعمل لایا گیا 'روس،بھارت اور چین کے وزرائے ِخارجہ کی ایک سرسری میٹنگ ہوئی اور اِس سرسری میٹنگ کے دوران طے پایا گیا کہ یہ تینوں ملک دہشت گردی کے خلاف ایک پلیٹ فارم پرمتحد ہوئے ہیں یہ کیسا عجب طرفہ تماشا نہیں ہے ؟بھارت 'روس اور چین کے درمیان جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک پاکستان بھی اپنا بین الااقوامی وجود رکھتا ہے جو ملک2001 کے بعد سے اب تک اندرون ِملک اور اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر دہشت گردی کا مسلسل اور متواتر متاثر ملک ہے وہ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی کا کردارادا نہیں کررہا؟بلکہ جس ملک نے دنیا بھر سے عالمی طاقتوں کی شہ پر لائے گئے ہزاروں دہشت گردگروپس سے باقاعدہ جنگ لڑی ہے اب تک حالت ِجنگ میں ہے، اْس ملک کو متذکرہ سہ ملکی وزارت ِخارجہ سے کیسے اورکیونکرعلیحدہ رکھ کر کوئی اعلامیہ معتبر تسلیم کیا جائے ’ سوال تو بنتا ہے جناب ِوالی!جنوبی ایشیا میں 'مفاداتی دہشت گردی'کی جب کبھی کوئی تاریخ لکھی جائے گی توکوئی مورخ'را'موساد'سی آئی اے'اور این ڈی ایس'جیسی استعماریت کی بنیاد پر بنائی جانے والی خفیہ تنظیموں کی جارحانہ سرگرمیوں کی خونچکاں داستانوں کی قلعی کھولے بغیراْنہیں معاف نہیں کرسکتا'برکس کانفرنس'کب نئی دہلی میں منعقد ہوئی تھی ؟جس میں روس'چین سمیت دیگر ممالک کے رہنما شریک ہوئے؟ اِیسے مواقعوں پر کتنی رسمی اور کتنی غیر رسمی ملاقاتیں مختلف ممالک کے رہنماؤں کے مابین ہوتی ہیں جبکہ 'برکس کانفرنس' کا باقاعدہ مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا تھا، اِس موقع پر چین اور روس کے وزرائے خارجہ کی کوئی ایک علیحدہ میٹنگ ضرور ہوئی ہوگی جس میں بھارت کی وزیر خارجہ شسماسورج نے بھی شرکت کی ہوگی دہشت گردی کی دنیا بھر میں کہاں کہاں مذمت نہیں کی جاتی ؟یقینا یہاں بھی روس اورچین کے وزرائے ِخارجہ نے دہشت گردی کی مذمت کی ہوگئی ،لیکن اِس کا یہ مطلب نکالنا بھارت کی اپنی کہنہ اور فرسودہ منطق ہے کہ روس اورچین کے وزرائے ِخارجہ نے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کواْس کی جڑبیخ سمیت اکھاڑ نے میں پاکستان کوسائڈ لائن پررکھ کرسہ ملکی کوئی اعلامیہ جاری کیا ہوگا؟ اور بھارت کی سٹبلیشمنٹ نے اِسے اپنی سفارتی کامیابی سمجھ لیا ؟جبکہ کئی ماہ گزرنے کے بعد اب بھارتی قیادت نے سفارتی بڑکیں تک مارنی شروع کردیں، یہی نہیں بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' نے اپنے پے رول پر مصروف ِعمل صحافیوں کو استعمال کرکے 'چین روس بھارتی معاہدے'کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا ہے جس کے ڈھول کا پول فوراً ہی کھل بھی گیا کیونکہ اب خطہ میں بہت تیزی کے ساتھ روس بھی اپنا ایشیائی کردار ادا کرنے کے لئے چند قدم آگے بڑھ کر چین کے ہم قدم ہوا ہی چاہتا ہے روس نے پہلے ہی اپنا یہ عندیہ ظاہر کردیا ہے کہ وہ پاکستان چین اقتصادی راہداری میں اپنی شرکت کو ہر صورت کو یقینی بنائے گا یہ امربھارت کے لئے ایک تشویش ناک پیغام ہوگا اس کا 'ہنی مون پیریڈ'اب ختم ہونے والا ہے آج نہیں تو کل امریکا کو ہر حال میں افغانستان کی سرزمین چھوڑنی پڑے گی پھر اور وہ چلاچلا کر دنیا سے یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ'دیکھو مجھے جو دیدہ ِعبرت نگاہ ہو'۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024