امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں عوام کے جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے والی ضروریات زندگی سمیت سر سے پائوں تک کو ڈھانپنے کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں جو ریکارڈ گرانی ہوئی ہے اس نے کروڑوں عوام کو حواس باختہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں اس حقیقت حال پر ان ارباب اختیار کی عقل و دانش نرم سے نرم الفاظ میں قابل مذمت ہی قرار دی جا سکتی ہے جن کی عوام کو زندہ رہنے کی ضرورت کی اشیاء کی ان کی استطاعت کے مطابق فراہمی کی طرف کوئی توجہ ہے نہ غالباً انہیں اس کا کبھی خیال آیا ہو گا۔ یقیناً اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایوان اقتدار کے ایسے تمام مکینوں کو خواہ کسی بھی ذرائع اور طریقے سے ہوں نہ صرف زندہ رہنے کی تمام تر اشیاء وافر مقدار میں مہیا ہیں بلکہ ان کے وسائل اس قدر وسیع ہیں کہ وہ حال اور مستقبل کیلئے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے ان تمام اشیاء کی ہر قیمت پر ضروت سے زیادہ کی مقدار میں فراہمی پر قادر ہو چکے ہیں، انہیں اب جسم اور رورح کے رشتے کی بحالی کے لئے ضروری اور لازمی اشیاء کی فراہمی کی کوئی فکر دامنگیر نہیں ہے، انہیں اگر تگ و دو ہے تو صرف اور صرف اس بات کی کہ ایک طویل مدت تک ان کا نام ایوان اقتدار کے مکینوں میں برقرر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی چالیس فیصد سے زائد آبادی جو کروڑوں خاندانوں سے عبارت ہے خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہی ہے۔اور حکمرانوں پر عوامی فلاح و بہبود کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے اربوں روپوں، بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کا آغاز اور ان کی تکمیل پر صرف کرنے کا جنون سوار ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس صوبے کو اناج کا گھر کہلانے کا شرف حاصل رہا ہے، اسی لئے اس صوبے کے عوام کو یہاں سے پیدا ہونے والی اناج اور اس سے متعلقہ اشیائے خورد و نوش کی کمیابی اور گرانی کی حد سے گزر جانے کی کبھی فکر دامنگیر نہیں رہی۔ ماضی میں امن و امان کے حوالے سے بھی اس صوبے کے عوام کو جان و مال کے تحفظ پر تشویش نہ ہونے کے برابر ہی رہی۔ حقائق کچھ یوں ہیں کہ صوبے میں ان کروڑوں خاندانوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی خاطر یا ان کی فلاح و بہبود اور ان کی زندگیوں پر سے مایوسی و بددلی کے سائے دور کرنے کے ذمہ دار آنکھیں بند کئے صرف اور صرف اپنے نام و نمود کو نمایاں کرنے کے ایسے ایسے منصوبوں پر وہ بھاری رقوم صرف کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہیں جن رقوم سے صوبے کے کروڑوں فاقہ کش خاندانوں کو زندگی بھر کی ایسی سہولتیں میسر کی جا سکتی ہیں کہ انہیں پینے کا صاف پانی میسر آ سکے، رہنے کے لئے چھتیں فراہم کی جا سکیں، ان کے بچوں کے لئے عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے، سرکاری ہسپتالوں کی موجود بدترین حالت کو بہتر بنایا جا سکے، ان ہسپتالوں سے لوگوں کی ضرورت کی ادویات فراہم ہو سکیں۔ اس حوالے سے یہ کہنا کس قدر افسوسناک ہے کہ جب ارباب اختیار سے اس قسم کے متکبرانہ بیانات منظرعام پر آتے ہیں کہ اب غریبوں اور نادروں کو مفت ادویات فراہم کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ غریب اور نادار لوگ ہیں، جن کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کردہ ٹیکسوں سے وہی ارباب اقتدار دنیا بھر کی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے اور زندگی کی ہر ضرورت سے عہدہ برآ ہوتے ہیں جبکہ اس وطن عزیز کا ہر وہ باسی خواہ وہ ارباب اقتدار کے من گھڑت فارمولوں کے نتیجے میں ملکی وسائل سے اپنا حصہ لینے سے محروم رکھا گیا ہے، انہی مراعات و آسائشوں کا برابر کا حقدار ہے جو آسائشیں اور مراعات ارباب اقتدار وصول کر رہے ہیں۔ ایسے حقدار عوام کی ضروریات جو سو فیصد ان کا حق ہے پوری کرنے کی بجائے ملک میں اشرافیہ یا حکمران طبقہ نے ایک مطلب کے طرز تکلم کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے، کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں برسراقتدار طبقہ ہی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے، ملک میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی تعداد چند ہزار تک محدود ہے مگر ایوان اقتدار میں براجمان اشرافیہ کے صاحبان حل و عقد نے مخصوص مقاصد کے تحت اپنے طبقہ اشرافیہ ہی کو ہدف تنقید بنانا شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد ایسے محروم طبقوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے جو اشرافیہ اور ان کے ارباب اختیار سے اور ان کے حربوں سے اچھی طرح وقف ہے مگر بلاوجہ اس سلسلے کو اشرافیہ کے نمائندے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کروڑوں عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی امنگوں کے برعکس ارباب اختیار کے ایسے بے فائدہ طرز عمل ہی کا نتیجہ ہے کہ ارباب اختیار اپنے حقیقی فرائض کی بجاآوری سے دور ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب میں امن و امان کی صورتحال پر جس قدر بھی تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب مختلف علاقوں میں ڈکیتی کی وارداتیں نہ ہوتی ہوں۔ اس قسم کے بدترین امن و امان کا اندازہ اخبارات کی خبروں سے ہوتا ہے ورنہ حکومتی حلقوں میں تو سب اچھا ہے کی صدائیں ہی بلند ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں 5 فروری کو نوائے وقت کے نامہ نگار کے حوالے سے شائع شدہ خبر کے مطابق لاہور شہر کے مختلف علاقوں میں 75 لاکھ روپے کے ڈاکے پڑے، اسی طرح 7 فروری کو 15 لاکھ سے زائد کے ڈاکے رپورٹ ہوئے۔ ڈاکو شہریوں کے زیورات، نقدی وغیرہ لوٹ کر لے گئے۔ اسی طرح 5 فروری کو نوائے وقت کے نامہ نگار کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر نواب ٹائون کے علاقے میں ایک ستر سالہ خاتون کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ خدا معلوم صوبائی دارالحکومت سے باہر کے دور دراز کے شہروں اور دیہی علاقوں میں بے بس عوام کی حالت زار اور امن و امان کی کیا صورت ہو گی؟
پنجاب میں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری اگرچہ براہ راست صوبے کے چیف ایگزیکٹو پر عائد ہوتی ہے مگر نامعلوم اس حوالے سے پولیس جس پر صوبے کے غریب عوام کے اربوں روپے سالانہ صرف ہوتے ہیں وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں کیوں ناکام ہے۔ صوبے میں پولیس کے خلاف شکایتوں کے انبار ہیں جو یقیناً بے جا نہیں۔ پولیس کی فرض ناشناسی اور عوام پر زیادتیوں کی شکایتیں زبان زدعام ہیں۔ 7 فروری کو ناوائے وقت میں نامہ نگر کے حوالے س یہ خبر شائع ہوئی کہ مغلپورہ کے علاقے میں مسلح پولیس اہلکاروں نے شادی والے گھر دھاوا بول کر اہلخانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر کے سربراہ سرکاری سکول کے استاد کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ تفصیلات میں بتایا گیا کہ مغلپورہ کے علاقہ میں سرکاری سکول کے استاد امیر حمزہ خاں کی دو بیٹیوں کی 9 فروری کو شادی تھی رات تھانہ مغل پورہ کا اے ایس آئی 4 پولیس اہلکاروں اور چھ سول کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد کے ہمراہ امیر حمزہ خان کے گھر داخل ہوا جس نے واردات کی۔ اسی طرح ایک قومی خبر رساں ایجنسی آئی این پی کی ایک خبر 6 میں کہا گیا کہ کاہنہ پولیس نے چادر اور چار دیواری کی دھجیاں اڑا دیں، زبردستی گھر میں گھس کر خواتین سے بدتمیزی کی۔ یہ افسوسناک واقعہ ماڈل تھانہ کاہنہ کی پولیس کی طرف سے کاہنہ کے ایک رہائشی غلام مصطفی کے گھر وقوع پذیر ہوا۔ جس صوبے میں پولیس کے ہاتھوں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں سماج دشمن عناصر سے بچانے کی بجائے گھروں میں گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنے اور انہیں زدوکوب کرنے کا سلسلہ جاری ہو اور وہاں کے ارباب اقتدار سب اچھا کا را گ الاپتے رہیں تو ایسے صوبے میں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کا خدا ہی حافظ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38