پاکستانی مانچسٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماحولیاتی آلودگی سے فضامسموم
احمد کمال نظامی
kamal fsd5050@hotmail.com
فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہونے کے باعث پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کی زد میں ہے، شہر میں گاڑیوں، بسوں، ویگنوں، رکشوں اور دیگر وہیکلز کی آمدورفت میں ہارن بجنے کا سلسلہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہارن کی آواز سن کر انسان چڑچڑاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ شہر کے مختلف روٹس پر چلنے والی وہیکلز میں سے ایک تہائی ایسی ہوتی ہیں کہ مرمت طلب ہونے کے باوجود سڑکوں پر بھاگتی نظر آتی ہیں۔ یہ گاڑیاں فضا میں زہریلا دھواں چھوڑتی ہوئی گزرتی ہیں جو ہوا میں شامل ہو کر شہر کی فضا کو بہت زیادہ مسموم بنا دیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی خواہ آواز کی ہو یا فضا کی، دونوں صورتوں میں گردوپیش میں رہنے والوں کے لئے متعدد امراض کا باعث بن جاتی ہےں۔ فیصل آباد میں صنعتی شہر ہونے کے ناطے صرف بڑے کارخانوں کی مشینوں کے چلنے سے ہی شور کی سی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، شہر میں پچاس ہزار سے بھی زائد پاور لومز کا پہیہ چلتا ہے۔ دھوئیں کی آلودگی سے انسان سانوں کے ذریعے فضا میں سے بہت سے زہریلے مادے اپنے جسم میں کھینچ لیتا ہے اور غالباً محکمہ ماحولیات کے کارپردازوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ شہر میں چلنے والی گاڑیوں، بسوں، ویگنوں، رکشوں اور دیگر وہیکلز کو شہر کی فضا میں مزید زہریلا دھواں بھر کر فضا کو خوفناک حد تک مسموم نہیں بنانا چاہیے لہٰذا گذشتہ روز محکمہ کے انفورسمنٹ انسپکٹروں نے مختلف روٹس پر مورچے لگا کر 658گاڑیوں کو چیک کیا۔ اس کریک ڈا¶ن کے نتیجے میں شور مچانے اور دھواں چھوڑنے والی سینکڑوں وہیکلز کے مالکوں کے چالان کئے گئے۔ بعض گاڑیاں تو باقاعدہ بند کر دی گئیں۔ بروقت مرمت نہ کروانے اور فضا میں دھوئیں یا شور کی آلودگی بھرنے والی 386 گاڑیوں کے چالان کئے گئے۔ 42گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ معطل اور 72گاڑیوں کو مختلف تھانوں میں بند کرنے کی محکمہ ماحولیات کی اس مہم سے وقتی طور پر شہر میں ٹریفک کا شور اور زہریلے دھوئیں کی فضا میں آویزش رک گئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ محکمہ ماحولیات کے کارپردازوں کو گاڑیوں پر اس قسم کے کریک ڈا¶ن کا خیال کئی ماہ گزرنے کے بعد کیوں آتا ہے۔ ان کا انفورسمنٹ سٹاف اگر باقاعدہ دھواں چھوڑنے اور شور مچانے والی گاڑیوں کو چیک کرتا رہے تو شہر کو فضائی آلودگی سے کافی حد تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ویسے فیصل آباد ایک ایسا شہر ہے جس میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے علاوہ بھی فضا کو آلودہ کرنے کے بہت سے سامان موجود ہیں۔ مثال کے طور پر شہر کے اکثر کوڑا سٹینڈ پر سے کئی کئی دنوں تک کوڑا اندرون شہر سے شہر سے باہر لے جا کر اسے ڈمپ نہیں کیا جاتا اور اس طرح یہ کوڑا اور کچرا فضا میں سرانڈ بھرنے کا باعث بنتا ہے۔ فیصل آباد کے واٹرسپلائی اور سیوریج کے پائپ کئی جگہ ایک دوسرے کے اوپر نیچے سے گزارے گئے ہیں اور اکثر علاقوں کے مکینوں کی یہ مستقل شکایت ہے کہ انہیں پینے کا جو پانی سپلائی کیا جاتا ہے اس میں سیوریج کے پانی کی تھوڑی بہت آمیزش لازمی ہوتی ہے۔ اگر اس پانی کو پینے کے لئے نہ بھی استعمال کیا جائے تو بھی کچن کی دیگر ضروریات چائے بنانے، برتن دھونے، سالن میں پانی کا استعمال اور اس طرح نہانے اور وضو وغیرہ کرنے کے لئے یہ نیم آلودہ سرکاری پانی ہی استعمال ہوتا ہے لہٰذا انسان کو اپنی زندگی جن آلودگیوں میں گرے رہ کر گزارنی پڑتی ہے۔ ان میں ہمارے گھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کی یہ غیرمحسوس آلودگی بھی شامل ہے۔ دنیا میں موسموں کی تبدیلی کے حوالے سے ماحولیاتی آلودگی بڑھتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں سردی کی شدت سے بچنے کے لئے لکڑیوں سے کئی کئی گھنٹے تک آگ جلائی جاتی ہے۔ ہمارے صفائی کے عملے نے کوڑے کو شہر سے منتقل کرنے سے بچنے کے لئے ایک آسان طریقہ یہ بھی اپنا رکھا ہے کہ وہ کسی کھلی جگہ کوڑے کو پھینک کر اس کو آگ لگا دیتے ہیں اور اس طرح اس کوڑے میں کئی کئی گھنٹے تک آگ سلگتی اور اس کے باعث دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ یہ دھواں بھی حفظان صحت کے اصولوں کے منافی ہے۔ ابھی چند روز پہلے صوبہ خیبر پی کے کی حکومت کی طرف سے صوبے کے ٹمبر مافیا کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارے جنگلات زیادہ تر صوبہ خیبر پی کے کے علاقے میں ہیں اور جنگلات میں سے درختوں کی بے دریغ کٹائی، آئے روز کا معمول بنی ہوئی ہے۔ تعمیرات میں اصول و ضوابط کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ عمارتو ںکی تعمیر میں لکڑی کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے تو ان عمارتوں کو اچانک آگ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں نہ صرف انسانی زندگیوں اور انسانی اموال کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ دھوئیں کی جو بہت بڑی مقدار فضا میں شامل ہوتی ہے اس سے اور آگ کی تپش سے ماحولیاتی فضا بہت حد تک مکدر ہو جاتی ہے۔ ہمارے لوگ درختوں کی بے مہابہ کٹائی سے فضا میں تغیرو تبدل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ فضا جس کو درختوں سے پیدا ہونے والی آکسیجن بہت حد تک صاف کر دیتی ہے جب ماحول میں سے درخت ختم کر دیئے جائیں تو یہ فضا مسموم ہو جاتی۔ پاکستان میں موسم بہار کی آمد آمد ہے۔ ملک کے تمام علاقوں میں شجرکاری کی بھرپور مہمیں چلنی چاہئیں۔ ملک میں ہر چھوٹے بڑے شخص کے نام کی شجرکاری سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ صوبہ خیبر پی کے کی حکومت نے صوبے میں تین ارب پودوں کے لگانے اور شجرکاری پر بڑی رقوم خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ محکمہ تعلیم نے طلباوطالبات کے ذریعے سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد میں موسم بہار کے دوران ایک لاکھ پودے لگانے کی مہم چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی محض پاکستان کا مسئلہ نہیں ۔ دنیا بھر کے تمام ممالک اس مسئلے سے دوچار ہیں لیکن اکثر ممالک میں ابھی انسانی قدروں کی موت واقع نہیں ہوئی اس لئے کچھ لوگ حکومتوں اور دنیا کے تمام افراد کو اس بات پر رضامند کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف رہتے ہیں کہ قدرتی نعمتیں ساری دنیا کے انسانوں کی ملکیت ہیں ان پر قبضہ کرنا یا قدرتی ماحول کو دنیا بھر کے لوگوں کے لئے زہرآلود کرنا یا دشوار بنانا انسانیت کی بقاءکے لئے شدید خطرات کا باعث ہو سکتا ہے۔ دنیا میں توانائی کے حصول کے لئے دھوئیں کی آلودگی پیدا کرنے والے وسائل پر انحصار ختم کرنے اور صاف و قابل تجدید وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے ہدف کا حصول بہت زیادہ مشکل اور مہنگا نہیں بنا دینا چاہیے۔ توانائی کے معدنی وسائل مثلاً تیل اور گیس کو چھوڑ کر ایٹمی توانائی اور توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ہو سکتا ہے۔ عمارات میں توانائی کے زیادہ سے زیادہ باکفایت استعمال کو رواج دیا جانا چاہیے۔ بائیوفیول استعمال کرنے اور گوشت کے استعمال کی بجائے سبزی خوری کی راہ اختیار کر کے تو اس سے انسانوں کی گیس کا اخراج بھی ماحولیاتی آلودگی کو زیادہ متعفن نہیں بناتا۔ فیصل آباد چونکہ مشینوں کا شہر ہے فیکٹری اور کھڈیوں کا شہر ہے لہٰذا محکمہ ماحولیات کے کارپردازوں کو شہر سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے لئے ہمیشہ متحرک رہنے اور جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔