مکرمی : ایک وزیر موصوف کی کھلی کچہری میں جانے کا اتفاق ہوا جس کی منادی کئی دنوں سے کی جا رہی تھی۔ جائے مقررہ اور وقت مقررہ پر لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا۔ آس و اُمید کی ٹوٹتی ہوئی سانسیں لئے بوڑھے‘ عورتیں اور جوان آسمان سے ساون برسنے کے انتظار کی طرح ‘ وزیر موصوف کا راہ تکنے لگے۔ آخر کار مقررہ وقت سے کوئی دو گھنٹے بعد وزیر صاحب کی لمبی سیاہ گاڑی آ کر رکی تو پریشانیوں اور مسائل سے بوجھل انسانیت اس کی طرف یوں متوجہ ہوئی جیسے کئی دنوں کا بھوکا پیاسا شخص کھانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وزیر صاحب کے استقبال کے لئے وہ بوڑھے بھی کھڑے ہوئے جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں کو کھڑا کیا تھا اور وہ جوان بھی کھڑے ہوئے جنہوں نے اس ملک کی عمارت کو کھڑا رکھنا ہے۔ وزیر صاحب نے آتے ہی سب لوگوں کا سرسری حال احوال تو پوچھا لیکن شاید وہ سوال نہ پڑھ سکے جو ہر چہرے پر عیاں تھے۔ اتنے میں وزیر صاحب کے سیکرٹری نے کہا کہ سب لوگ قطار بنا لیں تو سب افراد یوں قطار میں جا کھڑے ہوئے جیسے وہ بحر رومہ سے پانی لینے آئے ہوں۔ وزیر صاحب نے ایک ایک شخص کو بلانا شروع کیا اور اس سے اس کے مسئلے کے متعلق دریافت تو کرنا شروع کر دیا لیکن اس کا لب و لہجہ ایسا سخت تھا کہ لوگ ان سے یوں ڈرنے لگے جیسے گویا یہ پاکستان کے کسی وزیر کی کچہری نہ ہو بلکہ برطانوی سامراج کی دور کی کسی انگریز افسر کی کھلی کچہری ہو جس کا مقصد مقامی لوگوں کو انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر سزا دینا ہو۔ اتنے میں ایک عورت‘ وزیر موصوف کے سامنے پیش ہوئی اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگی کہ صاحب! میرے پاس اپنا اور اپنی بچیوں کا سر چھپانے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مہربانی فرما کر میری کوئی مدد کریں۔ وزیر موصوف نے کہا بی بی ! ابھی ہمارے پاس فنڈ نہیں آیا جب فنڈ آئے گا تو دیکھا جائے گا چلو ہٹو آگے سے ! اُس بی بی نے اگلی بات کرنا ہی چاہی تو وزیر صاحب کے ساتھ آئے ہوئے اہلکاروں نے اُس عورت کو پکڑ کر ہٹانا چاہا تو وہ عورت گر گئی اور وزیر کی منتیں کرنے لگی کہ خدارا میری کچھ تو مدد کر دیں۔ مگر وزیر موصوف نے اپنے بندوں سے کہا کہ اسے زبردستی یہاں سے ہٹائو اور دور کرو تو وزیر اور پوری عوام کے سامنے وزیر کے اہلکاروں نے اس بے بس عورت کو دھکے دے کر پنڈال سے باہر کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد چند لوگ بڑی بڑی گاڑیوں سے اترے اور وزیر صاحب کی طرف آنے لگے تو وزیر صاحب نے اپنے ان چہیتے افراد کا اٹھ کر استقبال کیا اور انہیں اپنے ساتھ ایک خاص کمرے میں لے گئے اور لوگوں کو یہ کہتے گئے کہ وہ کچھ دیر انتظار کریں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد جب وزیر صاحب اپنے ان خاص مہمانوں کے ہمراہ باہر آئے تو کافی لوگ خالی ہاتھ‘ ٹوٹی ہوئی امیدوں اور بوجھل پائوں سے واپس جا چکے تھے۔ باقی رہ جانے والے لوگ بھی شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آج بھی انہیں یہاں سے مایوس لوٹنا پڑے گا۔ کل کی طرح آج بھی انہیں اپنے مسائل اپنے گلے سے لگا کر سونا پڑے گا اور شاید کسی دوسری کھلی کچہری کا انتظار کرنا پڑے گا جہاں جا کر وہ اپنی عزتِ نفس دوبارہ دائو پر لگائیں گے۔ یہ سب وزارتیں انہی عام لوگوں کی وجہ سے قائم ہیں جنہیں الیکشن سے پہلے تو گلے سے لگایا جاتا ہے اور بعد میں دیوار سے! خدارا انسانیت کی تذلیل بند کیجئے وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کھلی کچہریوں میں تماشہ بننے والے لوگ آپ ہی کا تماشہ بنا دیں!(محمد فاروق اعوان … فیصل آباد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024