جس شہر میں لٹ جائے اس شہر کی بیٹی
اس شہر کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
بیٹی کونسی؟ شہر کونسا اور سلطان کونسا؟ بیٹی وہ جس کا حکیم الامت نے عرش پر محل دیکھا تھا‘ شہر وہ جس میں فدایان اسلام اور اقبالؒ کی کثرت ہے اور سلطان؟ ذرا غور کریں کونسا ہو سکتا ہے۔ وہ سلطان؟ کیا خادم اعلیٰ پنجاب اس شہر میں ہوئی اتنی بڑی لوٹ کے ملزم کو پکڑ کر اسلام اور اقبالؒ کی بھی تھوڑی سی خدمت کر سکیں گے؟ وہ خادمِ اعلیٰ جو ہرگز ہرگز کاغذی نہیں‘ امید رکھیں؟ کریں گے اس بیٹی کو لوٹ لینے والوں سے کوئی شیر مقابلہ؟ انتظار کریں اور حکم الامت کے الفاظ میں اس بیٹی کی پاکیزگی کا حال پڑھیں۔
میں نے رومی سے پوچھا یہ لعل ناب کا محل
جس کی چمک کو سورج بھی خراج پیش کرتا ہے
یہ مقام یہ عظمت یہ محل جہاں حوریں مؤدب کھڑی ہیں
اے سالکوں کو ذوق جستجو دینے والے
اس کا مالک کون ہے مجھے پھر سے بتائیں
کہا یہ شرف النساء کا محل ہے
اس محل کے بام کے پرندے فرشتوں کے ہم نوا ہیں
ہمارے قلزم میں پھر کوئی ایسا گوہر پیدا نہیں ہوا
کسی ماں نے پھر اس جیسی بیٹی کو جنم نہیں دیا
اس کے مزار کی وجہ سے لاہور آسماں کا ہم مرتبہ ہے
دنیا میں کوئی بھی شخص اس کے راز سے آگاہ نہیں
آگے کا حال جو جاوید نامہ میں ’’قصرِ شرف النسائ‘‘ کے عنوان کی نظم میں حکیم الامت نے بیان کیا ہے اس طرح ہے ’’یہ خاتون سراپا ذوق و شوق و درد و داغ حاکم پنجاب کی چشم و چراغ تھی جس کی وجہ سے اس گورنر عبدالصمد خان کے خاندان کی عزت بڑھی۔ اس خاتون نے ایسا نقش چھوڑا ہے جو ہمیشہ رہے گا چونکہ اس کا وجود قرآن پاک سے سوز حاصل کرتا تھا اس لئے وہ ایک لمحہ بھی تلاوت کے بغیر نہیں گزارتی تھی۔ کمر میں دو دھاری تلوار اور ہاتھ میں قرآن رکھتی تھی۔ اس کے تن بدن ہوش و حواس اللہ مست رہتے تھے۔ اس کی خلوت میں شمشیر قرآن اور نماز ہی ساتھ ہوتے تھے۔ اس کی عمر اسی طرح گزری جب اس کے لبوں پر آخری سانس تھی تو اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا ’’اگر تو میری زندگی کا راز جاننا چاہتی ہے تو میری تلوار اور قرآن کو دیکھ۔ میری زندگی ان ہی دونوں کے گرد گھومتی رہی ہے یہ دونوں تیری بیٹی کی محرم قوتیں ہیں۔ میری آخری گزارش ہے انہیں مجھ سے جدا نہ کرنا۔ میری قبر گنبد اور قندیل کے بغیر ہی بہتر ہو گی۔ میری قبر کا سامان قرآن اور تلوار ہی ہو‘‘
اس کی موت کے بعد ماں نے بیٹی کی خواہش پوری کی۔ وہ قرآن جو وہ باغ میں بیٹھی سارا دن پڑھتی رہتی تھی اور شام کو اس پر تلوار رکھ کر سونے گھر چلی جاتی تھی‘ اس کے مزار پر رکھ دئیے۔ جسدِ خاکی زمین کے اندر اوپر مینار اور مینار میں قبر کے عین اوپر وہ قرآن اور تلوار ہوتے تھے‘ پھر کیا ہوا؟ حکیم الامت مولانا روم کے حوالے سے بتاتے ہیں۔
’’اس کا مزار اہل حق کو پیغام حیات دیتا تھا کہ مومن کو زندگی کیسے گزارنا چاہئے۔ پھر مسلمان نے اپنے ساتھ کیا جو کیا اور گردش دوراں نے ان کی بساط لپیٹ دی۔ مرد حق غیر مرد حق سے ڈرنے لگے۔ شیر خدا نے لومڑی کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اس کا دل اضطراب اور جذبہ سے خالی ہو گیا تو پنجاب پر جو گزری تو خود جانتا ہے۔
سکھ شمشیر اور قرآن اٹھا لے گئے
اور کشور پنجاب میں مسلمانی مر گئی‘‘
سکھوں نے اپنے دور سکھاشاہی میں اس قبر کے اوپر سے قرآن اور تلوار تو اٹھا لئے تھے مگر اس قبر‘ اس پر بنے مینار اور اردگرد کے وسیع باغ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ سکھ چلے گئے انگریز آ گئے ۔ انہوں نے اس مزار اور باغ کو ملک کا ثقافتی ورثہ قرار دیدیا۔ محکمہ آثار قدیمہ کو اس کی حفاظت سونپ دی گئی پھر انگریز بھی چلے گئے۔ پاکستان بن گیا۔ پاکستان کا محکمہ آثار قدیمہ اس قومی ورثہ کی حفاظت کرتا رہا اور پھر سکھوں کے سکھ آ گئے اور شرف النساء کے اس باغ کے پلاٹ بنا کر بانٹ لئے گئے۔ اوپر سکھ نیچے سکھ۔ محکمہ آثار قدیمہ روتا رہا‘ لڑتا رہا رو رہا ہے لڑ رہا ہے مگر سکھوں کے سکھوں کے سامنے کسی کی اب تک نہیں چل سکی۔ اقبال اکادمی اور مجلس اقبال نے بھی اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اس اسلام کی بیٹی کے لٹ جانے اور لوٹ لینے والوں کی کوئی تفصیل جمع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میڈیا پرنٹ ہے‘ الیکٹرانک ہو گیا ہے اس شہر کے ناظم اور حاکم کے علم و میڈیا کے بزنس کا چرچا ہے۔ خادم پنجاب سے صوبہ کے آخری گاؤں کا پٹواری بھی پڑھا ہے ڈرتا ہے آخری تھانے کا سپاہی بھی رات کو پانچ دفعہ درود پڑھ کر سونے لگا ہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی ابھی تک لاہور کی اس بیٹی کے لٹ جانے کی خبر نہیں ملی۔ کیسی اعلیٰ خدمت ہے یہ پنجاب اور لاہور کی؟ کیا خادم اعلیٰ پنجاب اس بیٹی کو لوٹ لینے والوں اور اس لوٹ میں تعاون کرنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی کریں گے؟ اس کی مکمل تحقیق کروا کر قوم کے سامنے اس لوٹ کے ذمہ داروں کی تفصیل پیش کر سکیں گے؟ ہم بھی دیکھیں گے اور وہ سلطان جس سے اتنی بڑی بھول ہوئی ہے؟ دیکھیں خادم پنجاب اس کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں یا نہیں۔ اسلام اور لاہور کی اس بیٹی کا باغ پلاٹ بنا بنا کر بانٹ اور بیچ دیا گیا۔ مینار بدصورت عمارات کے جنگل میں دم توڑ رہا ہے۔ جنگل میں جنگل کا قانون ہے اور اس بیٹی کے لٹ جانے کی کسی کو خبر ہی نہیں ہو سکی۔ پنجاب کے گورنر وفاق کے نمائندہ ہیں۔ وفاق کا محکمہ آثار قدیمہ اس جنگل میں کوئی راہ تلاش کر رہا ہے۔ اس گورنر کو بھی ابھی تک اس لوٹ کھسوٹ کا نوٹس لینے کی فرصت نہیں ملی۔ کیا اس کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں؟ اس شہر کے باسی ہونے کے حوالے سے وفاق کے نمائندہ ہونے کے حوالے سے اور علامہ اقبالؒ سے تعلق داری کے حوالے سے۔ میاں صاحب کو عدلیہ کی آزادی اور خدمت کے معاملات سے فرصت نہ ہو تو وہی نکالیں کچھ وقت بتائیں اہل لاہور کو کہ کیسے لٹ گئی ہے لاہور کی بیٹی!
اس شہر کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
بیٹی کونسی؟ شہر کونسا اور سلطان کونسا؟ بیٹی وہ جس کا حکیم الامت نے عرش پر محل دیکھا تھا‘ شہر وہ جس میں فدایان اسلام اور اقبالؒ کی کثرت ہے اور سلطان؟ ذرا غور کریں کونسا ہو سکتا ہے۔ وہ سلطان؟ کیا خادم اعلیٰ پنجاب اس شہر میں ہوئی اتنی بڑی لوٹ کے ملزم کو پکڑ کر اسلام اور اقبالؒ کی بھی تھوڑی سی خدمت کر سکیں گے؟ وہ خادمِ اعلیٰ جو ہرگز ہرگز کاغذی نہیں‘ امید رکھیں؟ کریں گے اس بیٹی کو لوٹ لینے والوں سے کوئی شیر مقابلہ؟ انتظار کریں اور حکم الامت کے الفاظ میں اس بیٹی کی پاکیزگی کا حال پڑھیں۔
میں نے رومی سے پوچھا یہ لعل ناب کا محل
جس کی چمک کو سورج بھی خراج پیش کرتا ہے
یہ مقام یہ عظمت یہ محل جہاں حوریں مؤدب کھڑی ہیں
اے سالکوں کو ذوق جستجو دینے والے
اس کا مالک کون ہے مجھے پھر سے بتائیں
کہا یہ شرف النساء کا محل ہے
اس محل کے بام کے پرندے فرشتوں کے ہم نوا ہیں
ہمارے قلزم میں پھر کوئی ایسا گوہر پیدا نہیں ہوا
کسی ماں نے پھر اس جیسی بیٹی کو جنم نہیں دیا
اس کے مزار کی وجہ سے لاہور آسماں کا ہم مرتبہ ہے
دنیا میں کوئی بھی شخص اس کے راز سے آگاہ نہیں
آگے کا حال جو جاوید نامہ میں ’’قصرِ شرف النسائ‘‘ کے عنوان کی نظم میں حکیم الامت نے بیان کیا ہے اس طرح ہے ’’یہ خاتون سراپا ذوق و شوق و درد و داغ حاکم پنجاب کی چشم و چراغ تھی جس کی وجہ سے اس گورنر عبدالصمد خان کے خاندان کی عزت بڑھی۔ اس خاتون نے ایسا نقش چھوڑا ہے جو ہمیشہ رہے گا چونکہ اس کا وجود قرآن پاک سے سوز حاصل کرتا تھا اس لئے وہ ایک لمحہ بھی تلاوت کے بغیر نہیں گزارتی تھی۔ کمر میں دو دھاری تلوار اور ہاتھ میں قرآن رکھتی تھی۔ اس کے تن بدن ہوش و حواس اللہ مست رہتے تھے۔ اس کی خلوت میں شمشیر قرآن اور نماز ہی ساتھ ہوتے تھے۔ اس کی عمر اسی طرح گزری جب اس کے لبوں پر آخری سانس تھی تو اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا ’’اگر تو میری زندگی کا راز جاننا چاہتی ہے تو میری تلوار اور قرآن کو دیکھ۔ میری زندگی ان ہی دونوں کے گرد گھومتی رہی ہے یہ دونوں تیری بیٹی کی محرم قوتیں ہیں۔ میری آخری گزارش ہے انہیں مجھ سے جدا نہ کرنا۔ میری قبر گنبد اور قندیل کے بغیر ہی بہتر ہو گی۔ میری قبر کا سامان قرآن اور تلوار ہی ہو‘‘
اس کی موت کے بعد ماں نے بیٹی کی خواہش پوری کی۔ وہ قرآن جو وہ باغ میں بیٹھی سارا دن پڑھتی رہتی تھی اور شام کو اس پر تلوار رکھ کر سونے گھر چلی جاتی تھی‘ اس کے مزار پر رکھ دئیے۔ جسدِ خاکی زمین کے اندر اوپر مینار اور مینار میں قبر کے عین اوپر وہ قرآن اور تلوار ہوتے تھے‘ پھر کیا ہوا؟ حکیم الامت مولانا روم کے حوالے سے بتاتے ہیں۔
’’اس کا مزار اہل حق کو پیغام حیات دیتا تھا کہ مومن کو زندگی کیسے گزارنا چاہئے۔ پھر مسلمان نے اپنے ساتھ کیا جو کیا اور گردش دوراں نے ان کی بساط لپیٹ دی۔ مرد حق غیر مرد حق سے ڈرنے لگے۔ شیر خدا نے لومڑی کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اس کا دل اضطراب اور جذبہ سے خالی ہو گیا تو پنجاب پر جو گزری تو خود جانتا ہے۔
سکھ شمشیر اور قرآن اٹھا لے گئے
اور کشور پنجاب میں مسلمانی مر گئی‘‘
سکھوں نے اپنے دور سکھاشاہی میں اس قبر کے اوپر سے قرآن اور تلوار تو اٹھا لئے تھے مگر اس قبر‘ اس پر بنے مینار اور اردگرد کے وسیع باغ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ سکھ چلے گئے انگریز آ گئے ۔ انہوں نے اس مزار اور باغ کو ملک کا ثقافتی ورثہ قرار دیدیا۔ محکمہ آثار قدیمہ کو اس کی حفاظت سونپ دی گئی پھر انگریز بھی چلے گئے۔ پاکستان بن گیا۔ پاکستان کا محکمہ آثار قدیمہ اس قومی ورثہ کی حفاظت کرتا رہا اور پھر سکھوں کے سکھ آ گئے اور شرف النساء کے اس باغ کے پلاٹ بنا کر بانٹ لئے گئے۔ اوپر سکھ نیچے سکھ۔ محکمہ آثار قدیمہ روتا رہا‘ لڑتا رہا رو رہا ہے لڑ رہا ہے مگر سکھوں کے سکھوں کے سامنے کسی کی اب تک نہیں چل سکی۔ اقبال اکادمی اور مجلس اقبال نے بھی اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اس اسلام کی بیٹی کے لٹ جانے اور لوٹ لینے والوں کی کوئی تفصیل جمع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میڈیا پرنٹ ہے‘ الیکٹرانک ہو گیا ہے اس شہر کے ناظم اور حاکم کے علم و میڈیا کے بزنس کا چرچا ہے۔ خادم پنجاب سے صوبہ کے آخری گاؤں کا پٹواری بھی پڑھا ہے ڈرتا ہے آخری تھانے کا سپاہی بھی رات کو پانچ دفعہ درود پڑھ کر سونے لگا ہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی ابھی تک لاہور کی اس بیٹی کے لٹ جانے کی خبر نہیں ملی۔ کیسی اعلیٰ خدمت ہے یہ پنجاب اور لاہور کی؟ کیا خادم اعلیٰ پنجاب اس بیٹی کو لوٹ لینے والوں اور اس لوٹ میں تعاون کرنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی کریں گے؟ اس کی مکمل تحقیق کروا کر قوم کے سامنے اس لوٹ کے ذمہ داروں کی تفصیل پیش کر سکیں گے؟ ہم بھی دیکھیں گے اور وہ سلطان جس سے اتنی بڑی بھول ہوئی ہے؟ دیکھیں خادم پنجاب اس کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں یا نہیں۔ اسلام اور لاہور کی اس بیٹی کا باغ پلاٹ بنا بنا کر بانٹ اور بیچ دیا گیا۔ مینار بدصورت عمارات کے جنگل میں دم توڑ رہا ہے۔ جنگل میں جنگل کا قانون ہے اور اس بیٹی کے لٹ جانے کی کسی کو خبر ہی نہیں ہو سکی۔ پنجاب کے گورنر وفاق کے نمائندہ ہیں۔ وفاق کا محکمہ آثار قدیمہ اس جنگل میں کوئی راہ تلاش کر رہا ہے۔ اس گورنر کو بھی ابھی تک اس لوٹ کھسوٹ کا نوٹس لینے کی فرصت نہیں ملی۔ کیا اس کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں؟ اس شہر کے باسی ہونے کے حوالے سے وفاق کے نمائندہ ہونے کے حوالے سے اور علامہ اقبالؒ سے تعلق داری کے حوالے سے۔ میاں صاحب کو عدلیہ کی آزادی اور خدمت کے معاملات سے فرصت نہ ہو تو وہی نکالیں کچھ وقت بتائیں اہل لاہور کو کہ کیسے لٹ گئی ہے لاہور کی بیٹی!