اگرچہ باطل کیخلاف مزاحمت انبیاء کرام کا شیوہ رہا ہے تاہم بہادر اور حق پرست انسانوں کا سنت ِ انبیاء پر عمل پیرا ہونا ہی اُنکے کردار کی عظمت اور رفعت کا تعین کرتا ہے ۔راہِ حق کے ایسے عظیم مزاحمتی کرداروں کی روشن بلندی کو فرشتے بھی رشک و حسد سے دیکھتے ہیں۔ انگریز مفکر برناڈ شاکا کہنا ہے
’’جو لوگ وقت کے بہائو کیساتھ چلتے ہیں ،انہیں عقل مند کہاجاتا ہے اور جو افراد مروجہ اقدار کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اُنہیں دیوانہ کہا جاتا ہے اور تاریخ میں انہی دیوانوں کا نام باقی رہ جاتا ہے ‘‘
تاریخ انسانی اِس حقیقت کی گواہ ہے کہ جو افراد، گروہ اور قوم حق وانصاف ،اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار، عدل وانصاف اور سچائی کے اصولوں کی خاطر ظالم اورمُطلق العنان حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق بلند کرتے ہیں حکمرانوں کی خواہشات کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردیتے ہیں دنیاوی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سچائی کی شمعیں روشن کرتے ہیں تو ایسے عظیم انسانوں کی عظمت کو فرشتے بھی سلام پیش کرتے ہیں ایسے پرعزم انسانوں کے کردار کے اجلے پن سے رب کریم کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سربسجو د ہونے کا حکم دیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان فرشتوں سے برتر اور اشر ف المخلوقات اِس لئے ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر باطل سے مزاحمت اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرتا ہے اور جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے۔ خدا کی راہ میں شہادت اُسکا مطمع نظر بن جاتا ہے یہاں سے انسان عظمتوں اور رفعتوں کے اُس سربفلک مینار پر بہنچ جاتا ہے جسے اہل دانش و علم انسانیت کی معراج کہتے ہیں جو اسلام کے غازیوں اور شہداء کی میراث ہے۔ایسے عظیم اور باکردار افراد کا تعلق جرات مند اور بہادروں کے اُس قبیلے سے ہوتا ہے جنکا نام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ اور جاوید رہتا ہے اور رہتی دُنیا تک اَمر ہوجاتا ہے۔عظیم یونانی فلسفی سقراط نے سچائی کی ترویج کی خاطر حکمرانوں کے زبان بندی پر مبنی احکامات ماننے سے صریحاً انکار کردیا۔حکرانوں کی آمرانہ سوچ کے سامنے مزاحمت کی قیمت اِس عہد ساز فلاسفر کو زہر کا پیالہ پی کر چکانی پڑی کیونکہ …؎
’’سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ ‘‘
بنی نوع انسا ن کی تاریخ آج بھی اِس بوڑھے بہادر شخص کے مزاحمتی کردار پر فخر کرتا ہے جو زہر کا پیالہ اپنے حلق میں انڈیلنے کے بعد اپنے شاگردوں کوسچائی، عدل وانصاف ، آئین کی حکمرانی اور قانون کی پابندی کی اہمیت پر لیکچر دینا شروع کردیتا ہے ۔سدا جینے کیلئے سقراط نے جرات اظہار کی خاطر موت کو قبول کرلیا لیکن اپنے آدرش پر آنچ نہ آنے دی ۔
تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں حق و باطل میں معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے۔ اہل حق ہمیشہ قلیل تعدا د اور بے سروسامانی کی حالت میں حق وصداقت کے اصولوں کی خاطر مصروفِ جدوجہد رہے اور اللہ تعالیٰ نے اُنکو قدرو منزلت عطا کی ۔دنیا میں باطل کی قوتیں کامیاب ہوکر بھی تاریخ میں ذلت و رسوائی کا نشان بنیں۔حق کے رستے میں جدوجہد ہی اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے اور ایک حق پرست انسان کیلئے یہی کامیابی ہے چاہے مقاصد حاصل ہوں یا نہ ہوں مگر جذبہ عمل ہی انسانیت کا سرمایہ عظیم ہوتا ہے۔حضرت امام حسین ؑ نے دین حق کی خاطر ظالم یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔اما م عالی مقام اپنے ساتھیوں سمیت اسلام کی سربلند ی کی خاطر کربلا میں شہید ہوگئے مگر یزید کی اطاعت نہ کی اور رہتی دُنیا کیلئے شجاعت اور صداقت کا درس دے گئے۔حضرت امام حسین ؑ کا نام تاقیامت مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن رہے گا اور یزید اور ابن زیاد تاابد ذلتّوں اوررسوائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں رہیں گے ۔اعلیٰ اور ارفع اخلاقی اصولوں کی جیت ہمیشہ کیلئے ہوتی ہے چاہے اِس راہ میں جان ہی کیوں نہ قربان ہوجائے…؎
قتل ِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام مالک ؒ ، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ ؒ کو کلمہ حق بلند کرنے پر ظالم اور جابر عباسی خلفاء کے ہاتھوں جیلوں میں کوڑے اور سخت جسمانی ایذائوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ سچائی کے اصولوں پر ثابت قدم رہے ۔ آج تاریخ اسلام کے یہ تینوں بہادر امام مسلمانوں کے دلوں میں انتہائی قدرو منّزلت کیساتھ زندہ ہیں۔ جلا ل الدین خوارزم شاہ ، صلاح الدین ایوبی ، سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان ، امام شامل ، حاجی مراد ، عمر مختار ، محمدبن قاسم مسلمانوں کی بہادرانہ تاریخ کے وہ عظیم ہیرو ہیں جنکی بہادری اور کردار کی عظمت اور اصولوں کی سچائی کو اُنکے دشمن بھی تسلیم کرتے تھے ۔حق کی خاطر باطل کی قوتوں کیساتھ ٹکرائو اور مزاحمت کی داستانیں ہمارے مزاحمتی ادب کا شاندار اور تاریخی ورثہ ہیں۔تاریخ کے یہ تمام عظیم مزاحمتی کردار ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں اور اِنکی قربانیوں کی وجہ سے ہم اپنا سر دنیا میں فخر سے بلند رکھ سکتے ہیں وگرنہ آج ہمارے مسلمان حکمرانوں کی مصلحت پسندی ،بزدلی اور اقتدار کی خاطر باطل کے سامنے سرنگوں ہونے ، امریکہ اوراسرائیل کی اطاعت گزاری نے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کہیں سر اُٹھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا ہے ۔ بقول اقبال …؎
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
ٹیپو سلطان کی للکار ’’شیر کی ایک دِن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے ‘‘ ایک تاریخی ضرب المثل بن کر آج برصغیر کے بچے بچے کی زبان پر ہے اور سر اُٹھا کر جینے کے تابناک فلسفہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔ سید احمد شہید اور بھگت سنگھ نے بھی سکھوں اور انگریزوں کیخلاف مزاحمت اور ٹکرائو کی راہ اختیار کرتے ہوئے جان اللہ کے سپرد کردی مگر سچائی کی راہ سے انحراف نہ کیا۔منصور حلاج اور سرمد نے نعرہ مستانہ بلند کرکے تاریخ میں حیات ِ جاوداں حاصل کی۔ حضرت قائد اعظمؒ اور نیلسن منڈیلا تاریخ میں دو ایسے کردار رہے ہیں جنہوں نے آئینی اور انقلابی پُرامن جدوجہد آزادی اورسامراجی عزائم کے سامنے مزاحمت کے ذریعے اپنی اقوام میں جرات اور عمل کی بہادرانہ روح پھونک دی ۔آج جنوبی افریقہ کی قوم آزادی اور نسل پرستی کے خاتمے کے بعد عدل اور جمہوریت کے راست پر گامزن ہوکر دنیا میں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کررہی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران اور سیاستدان قائد اعظم ؒ کی رحلت کے بعد سچائی ، جمہوریت اور عدل و انصاف کے اُن اصولوں سے رُوگردانی کرچکے ہیںجس کیلئے یہ عظیم اسلامی مملکت معرضِ وجود میں آئی ۔آج اِس مُلک پر جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کا آمرانہ قبضہ ہے جو اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر غریب اورکمزور پاکستانیوں کا زندگی کے ہرشعبے میں مسلسل استحصال کررہے ہیں۔
آج پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات اِس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں پاکستانی عوام کو ایک بار پھر استحصالی قوتوں کیخلاف مزاحمت کی راہ اختیار کرنی ہوگی تاکہ قائد اعظم کے پاکستان میں آئین،قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم کی جاسکے ۔اِس مُلک کی نظریاتی اساس کی حفاظت کیلئے جناب مجید نظامی پوری تندہی سے پاکستان مخالف قوتوں کے عزائم کیخلاف مزاحمت کار کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔حق وصداقت کی اِس جنگ میں محترم مجید نظامی اور اُنکے ادارہ نوائے وقت کو حکمرانوں کے ہاتھوں شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ پاکستان کے دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ۔صحافت کی دُنیا میں ایسا عظیم مزاحمتی کردار شاید ہی دوبارہ جنم لے ۔ وہ نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہیں۔
محترم مجید نظامی کے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا ہندوستان کے ناپاک عزائم کیخلاف مزاحمتی جذبہ جہاد، کرپشن سے پاک جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوگا۔ کمرشل صحافت کے بھانڈ نما قلم فروشوں کی دُشنام طرازیوں سے قافلہ راہ حق کی مزاحمت اور پیش قدمی رُک نہیں سکتی ہے کیونکہ مزاحمت کاروںکا دین و ایمان ہے کہ…؎
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
پاکستان کی تاریخ کے ایک اور عظیم مزاحمتی کردار ذوالفقار علی بھٹو نے مُلک کی آزادی کی حفاظت اور عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ کی خاطر ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا ۔امریکہ سے دُشمنی کی سزا بھگتتے ہوئے دلیری اور بہادری سے سرِ دارمقتل راہِ حق میں جان قربان کردی۔ آج پاکستانی عوام کا یہ عظیم مزاحمت کار ولی کا درجہ اختیار کرگیا ہے اور اُسکا قاتل ضیا الحق ذلت اور منافقت کا سمبل بن چکا ہے ۔ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دِل اِس لئے فگار ہے کہ دونوں نے عوام کے جمہوری حقوق کی خاطر فوجی آمروں سے مردانہ وار ٹکراتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔اُنہوں نے یہ ثابت کیاکہ سچائی کے اُصولوں کے سامنے جان و مال کی قربانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اصل جیت عوام کے دِلوں میں زندہ رہنا ہے …؎
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
9مارچ 2007 ء کو ہماری تاریخ نے ایک اور مزاحمتی کردار تخلیق کیا جسکا تعلق طبقہ اشرافیہ سے تھا مگر خدا جانے اُسکے من میں کیا سمائی کے اُس نے طاقتور اورباوردی ڈکٹیٹر کے سامنے انصاف کے اصولوں کی خاطرانکار اور مزاحمت کا نعرہ مستانہ بلند کردیا ۔
مطلق العنان حاکم وقت کے سامنے انکار کی گستاخی کرنے والا شخص یا تو دیوانہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا خاص مقرب بندہ جس کو اللہ تعالیٰ قافلہ حق کی قیادت کیلئے منتخب کرلیتا ہے ۔توفیق اللہ سے اُسکاذہن و قلب تبدیل ہوجاتا ہے فوجی آمر کا جلا ل غیض و غضب میں تبدیل ہوگیا اور وہ غیر فعال کردیا گیا ۔ڈکٹیٹر کے حواریوں نے اُسکو قید تنہائی میں ڈال دیا۔حکمرانوں کا خیال تھا کہ پُر آسائش زندگی کا عادی انسان لمحوں میں ٹوٹ کر بکھر جائیگا اور مستعفی ہوکر اُنکے مذموم عزائم کی تکمیل کردیگا مگر انسانوں کی چال پر اللہ تعالیٰ کی چال ہمیشہ بھاری ہوتی ہے ۔مشرف جسے اپنی میکاولی ذہانت پر بڑا زعم تھا اُسے پتہ چل گیا
’’وَ مَکَرُوَ مَکَر اللّٰہ ۔ وَاَللّٰہ خَیرالمَاکِریَنo
اُنہوں نے سازش کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے
خلق ِ خدا چیف جسٹس افتخار محمد چودہری کے حرفِ انکار پر مَرمٹی وہ تاریخ کے عظیم مزاحمتی کرداروں کی صف میں شامل ہوگیا ۔بینظیربھٹو کو کہنا پڑا ‘‘افتخار چودھری ہی ہمارا چیف جسٹس ہے ‘‘ کیونکہ باوردی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکار کی بہادرانہ جرات اظہار نے جسٹس افتخار چودہری کو عوام کی نظروں میں ہیرو کا مقام دِلادیاہے وہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے اَمر ہوچکا ہے ۔ (جاری ہے)
’’جو لوگ وقت کے بہائو کیساتھ چلتے ہیں ،انہیں عقل مند کہاجاتا ہے اور جو افراد مروجہ اقدار کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اُنہیں دیوانہ کہا جاتا ہے اور تاریخ میں انہی دیوانوں کا نام باقی رہ جاتا ہے ‘‘
تاریخ انسانی اِس حقیقت کی گواہ ہے کہ جو افراد، گروہ اور قوم حق وانصاف ،اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار، عدل وانصاف اور سچائی کے اصولوں کی خاطر ظالم اورمُطلق العنان حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق بلند کرتے ہیں حکمرانوں کی خواہشات کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردیتے ہیں دنیاوی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سچائی کی شمعیں روشن کرتے ہیں تو ایسے عظیم انسانوں کی عظمت کو فرشتے بھی سلام پیش کرتے ہیں ایسے پرعزم انسانوں کے کردار کے اجلے پن سے رب کریم کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سربسجو د ہونے کا حکم دیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان فرشتوں سے برتر اور اشر ف المخلوقات اِس لئے ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر باطل سے مزاحمت اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرتا ہے اور جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے۔ خدا کی راہ میں شہادت اُسکا مطمع نظر بن جاتا ہے یہاں سے انسان عظمتوں اور رفعتوں کے اُس سربفلک مینار پر بہنچ جاتا ہے جسے اہل دانش و علم انسانیت کی معراج کہتے ہیں جو اسلام کے غازیوں اور شہداء کی میراث ہے۔ایسے عظیم اور باکردار افراد کا تعلق جرات مند اور بہادروں کے اُس قبیلے سے ہوتا ہے جنکا نام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ اور جاوید رہتا ہے اور رہتی دُنیا تک اَمر ہوجاتا ہے۔عظیم یونانی فلسفی سقراط نے سچائی کی ترویج کی خاطر حکمرانوں کے زبان بندی پر مبنی احکامات ماننے سے صریحاً انکار کردیا۔حکرانوں کی آمرانہ سوچ کے سامنے مزاحمت کی قیمت اِس عہد ساز فلاسفر کو زہر کا پیالہ پی کر چکانی پڑی کیونکہ …؎
’’سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ ‘‘
بنی نوع انسا ن کی تاریخ آج بھی اِس بوڑھے بہادر شخص کے مزاحمتی کردار پر فخر کرتا ہے جو زہر کا پیالہ اپنے حلق میں انڈیلنے کے بعد اپنے شاگردوں کوسچائی، عدل وانصاف ، آئین کی حکمرانی اور قانون کی پابندی کی اہمیت پر لیکچر دینا شروع کردیتا ہے ۔سدا جینے کیلئے سقراط نے جرات اظہار کی خاطر موت کو قبول کرلیا لیکن اپنے آدرش پر آنچ نہ آنے دی ۔
تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں حق و باطل میں معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے۔ اہل حق ہمیشہ قلیل تعدا د اور بے سروسامانی کی حالت میں حق وصداقت کے اصولوں کی خاطر مصروفِ جدوجہد رہے اور اللہ تعالیٰ نے اُنکو قدرو منزلت عطا کی ۔دنیا میں باطل کی قوتیں کامیاب ہوکر بھی تاریخ میں ذلت و رسوائی کا نشان بنیں۔حق کے رستے میں جدوجہد ہی اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے اور ایک حق پرست انسان کیلئے یہی کامیابی ہے چاہے مقاصد حاصل ہوں یا نہ ہوں مگر جذبہ عمل ہی انسانیت کا سرمایہ عظیم ہوتا ہے۔حضرت امام حسین ؑ نے دین حق کی خاطر ظالم یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔اما م عالی مقام اپنے ساتھیوں سمیت اسلام کی سربلند ی کی خاطر کربلا میں شہید ہوگئے مگر یزید کی اطاعت نہ کی اور رہتی دُنیا کیلئے شجاعت اور صداقت کا درس دے گئے۔حضرت امام حسین ؑ کا نام تاقیامت مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن رہے گا اور یزید اور ابن زیاد تاابد ذلتّوں اوررسوائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں رہیں گے ۔اعلیٰ اور ارفع اخلاقی اصولوں کی جیت ہمیشہ کیلئے ہوتی ہے چاہے اِس راہ میں جان ہی کیوں نہ قربان ہوجائے…؎
قتل ِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام مالک ؒ ، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ ؒ کو کلمہ حق بلند کرنے پر ظالم اور جابر عباسی خلفاء کے ہاتھوں جیلوں میں کوڑے اور سخت جسمانی ایذائوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ سچائی کے اصولوں پر ثابت قدم رہے ۔ آج تاریخ اسلام کے یہ تینوں بہادر امام مسلمانوں کے دلوں میں انتہائی قدرو منّزلت کیساتھ زندہ ہیں۔ جلا ل الدین خوارزم شاہ ، صلاح الدین ایوبی ، سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان ، امام شامل ، حاجی مراد ، عمر مختار ، محمدبن قاسم مسلمانوں کی بہادرانہ تاریخ کے وہ عظیم ہیرو ہیں جنکی بہادری اور کردار کی عظمت اور اصولوں کی سچائی کو اُنکے دشمن بھی تسلیم کرتے تھے ۔حق کی خاطر باطل کی قوتوں کیساتھ ٹکرائو اور مزاحمت کی داستانیں ہمارے مزاحمتی ادب کا شاندار اور تاریخی ورثہ ہیں۔تاریخ کے یہ تمام عظیم مزاحمتی کردار ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں اور اِنکی قربانیوں کی وجہ سے ہم اپنا سر دنیا میں فخر سے بلند رکھ سکتے ہیں وگرنہ آج ہمارے مسلمان حکمرانوں کی مصلحت پسندی ،بزدلی اور اقتدار کی خاطر باطل کے سامنے سرنگوں ہونے ، امریکہ اوراسرائیل کی اطاعت گزاری نے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کہیں سر اُٹھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا ہے ۔ بقول اقبال …؎
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
ٹیپو سلطان کی للکار ’’شیر کی ایک دِن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے ‘‘ ایک تاریخی ضرب المثل بن کر آج برصغیر کے بچے بچے کی زبان پر ہے اور سر اُٹھا کر جینے کے تابناک فلسفہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔ سید احمد شہید اور بھگت سنگھ نے بھی سکھوں اور انگریزوں کیخلاف مزاحمت اور ٹکرائو کی راہ اختیار کرتے ہوئے جان اللہ کے سپرد کردی مگر سچائی کی راہ سے انحراف نہ کیا۔منصور حلاج اور سرمد نے نعرہ مستانہ بلند کرکے تاریخ میں حیات ِ جاوداں حاصل کی۔ حضرت قائد اعظمؒ اور نیلسن منڈیلا تاریخ میں دو ایسے کردار رہے ہیں جنہوں نے آئینی اور انقلابی پُرامن جدوجہد آزادی اورسامراجی عزائم کے سامنے مزاحمت کے ذریعے اپنی اقوام میں جرات اور عمل کی بہادرانہ روح پھونک دی ۔آج جنوبی افریقہ کی قوم آزادی اور نسل پرستی کے خاتمے کے بعد عدل اور جمہوریت کے راست پر گامزن ہوکر دنیا میں ترقی و خوشحالی کی منازل طے کررہی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران اور سیاستدان قائد اعظم ؒ کی رحلت کے بعد سچائی ، جمہوریت اور عدل و انصاف کے اُن اصولوں سے رُوگردانی کرچکے ہیںجس کیلئے یہ عظیم اسلامی مملکت معرضِ وجود میں آئی ۔آج اِس مُلک پر جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کا آمرانہ قبضہ ہے جو اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر غریب اورکمزور پاکستانیوں کا زندگی کے ہرشعبے میں مسلسل استحصال کررہے ہیں۔
آج پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات اِس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں پاکستانی عوام کو ایک بار پھر استحصالی قوتوں کیخلاف مزاحمت کی راہ اختیار کرنی ہوگی تاکہ قائد اعظم کے پاکستان میں آئین،قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم کی جاسکے ۔اِس مُلک کی نظریاتی اساس کی حفاظت کیلئے جناب مجید نظامی پوری تندہی سے پاکستان مخالف قوتوں کے عزائم کیخلاف مزاحمت کار کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔حق وصداقت کی اِس جنگ میں محترم مجید نظامی اور اُنکے ادارہ نوائے وقت کو حکمرانوں کے ہاتھوں شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ پاکستان کے دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ۔صحافت کی دُنیا میں ایسا عظیم مزاحمتی کردار شاید ہی دوبارہ جنم لے ۔ وہ نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہیں۔
محترم مجید نظامی کے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا ہندوستان کے ناپاک عزائم کیخلاف مزاحمتی جذبہ جہاد، کرپشن سے پاک جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوگا۔ کمرشل صحافت کے بھانڈ نما قلم فروشوں کی دُشنام طرازیوں سے قافلہ راہ حق کی مزاحمت اور پیش قدمی رُک نہیں سکتی ہے کیونکہ مزاحمت کاروںکا دین و ایمان ہے کہ…؎
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
پاکستان کی تاریخ کے ایک اور عظیم مزاحمتی کردار ذوالفقار علی بھٹو نے مُلک کی آزادی کی حفاظت اور عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ کی خاطر ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا ۔امریکہ سے دُشمنی کی سزا بھگتتے ہوئے دلیری اور بہادری سے سرِ دارمقتل راہِ حق میں جان قربان کردی۔ آج پاکستانی عوام کا یہ عظیم مزاحمت کار ولی کا درجہ اختیار کرگیا ہے اور اُسکا قاتل ضیا الحق ذلت اور منافقت کا سمبل بن چکا ہے ۔ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دِل اِس لئے فگار ہے کہ دونوں نے عوام کے جمہوری حقوق کی خاطر فوجی آمروں سے مردانہ وار ٹکراتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔اُنہوں نے یہ ثابت کیاکہ سچائی کے اُصولوں کے سامنے جان و مال کی قربانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اصل جیت عوام کے دِلوں میں زندہ رہنا ہے …؎
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
9مارچ 2007 ء کو ہماری تاریخ نے ایک اور مزاحمتی کردار تخلیق کیا جسکا تعلق طبقہ اشرافیہ سے تھا مگر خدا جانے اُسکے من میں کیا سمائی کے اُس نے طاقتور اورباوردی ڈکٹیٹر کے سامنے انصاف کے اصولوں کی خاطرانکار اور مزاحمت کا نعرہ مستانہ بلند کردیا ۔
مطلق العنان حاکم وقت کے سامنے انکار کی گستاخی کرنے والا شخص یا تو دیوانہ ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا خاص مقرب بندہ جس کو اللہ تعالیٰ قافلہ حق کی قیادت کیلئے منتخب کرلیتا ہے ۔توفیق اللہ سے اُسکاذہن و قلب تبدیل ہوجاتا ہے فوجی آمر کا جلا ل غیض و غضب میں تبدیل ہوگیا اور وہ غیر فعال کردیا گیا ۔ڈکٹیٹر کے حواریوں نے اُسکو قید تنہائی میں ڈال دیا۔حکمرانوں کا خیال تھا کہ پُر آسائش زندگی کا عادی انسان لمحوں میں ٹوٹ کر بکھر جائیگا اور مستعفی ہوکر اُنکے مذموم عزائم کی تکمیل کردیگا مگر انسانوں کی چال پر اللہ تعالیٰ کی چال ہمیشہ بھاری ہوتی ہے ۔مشرف جسے اپنی میکاولی ذہانت پر بڑا زعم تھا اُسے پتہ چل گیا
’’وَ مَکَرُوَ مَکَر اللّٰہ ۔ وَاَللّٰہ خَیرالمَاکِریَنo
اُنہوں نے سازش کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے
خلق ِ خدا چیف جسٹس افتخار محمد چودہری کے حرفِ انکار پر مَرمٹی وہ تاریخ کے عظیم مزاحمتی کرداروں کی صف میں شامل ہوگیا ۔بینظیربھٹو کو کہنا پڑا ‘‘افتخار چودھری ہی ہمارا چیف جسٹس ہے ‘‘ کیونکہ باوردی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکار کی بہادرانہ جرات اظہار نے جسٹس افتخار چودہری کو عوام کی نظروں میں ہیرو کا مقام دِلادیاہے وہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے اَمر ہوچکا ہے ۔ (جاری ہے)