بالآخر قومی اسمبلی کے چھٹے سیشن کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور مجالس قائمہ کے قیام پر ڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے ڈیڈ لاک کی وجہ سے پچھلے تین ماہ سے زائد عرصہ سے پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی نہیں ہو پارہی تھی۔ حکومت اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھی ۔ اگرچہ ’’مصلحتوں ‘‘کا شکار اپوزیشن اکٹھی نہیں ہو رہی تھی لیکن جب حکومت نے اپوزیشن رہنمائوں کی ’’طنابیں ‘‘ کسنا شروع کیں تو اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے باہم’’ فاصلے ‘‘ کم کرنے شروع کر دئیے ۔ حکومت کا ’’جارحانہ طرز عمل ‘‘ اپوزیشن جماعتوں کو ایک ’’صفحہ ‘‘ پر اکٹھا کرنے کا باعث بن گیا۔ کل تک پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے سے غیر اعلانیہ تعاون کر رہے تھے لیکن اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی باہم شیرو شکر نظر آتے ہیں ۔ دونوں اطراف سے خواہش کے باوجود میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی لیکن دونوں جماعتوں کے دیگر رہنمائوں کے درمیان رابطوں کے نتیجے میں پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن اکھٹی ہو گئی ہے۔ اس دوران حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے اور کچھ کو پکڑنے کے اشارات مل رہے ہیں ۔ نیب کے تازہ ترین شکار خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلیمان رفیق ہیں، جنھیں آشیانہ ہائوسنگ سکیم کے سلسلے میں ایک پرانے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلیمان رفیق کی گرفتاری کی بازگشت قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سنی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ قومی اسمبلی میں خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے خلاف واک آئوٹ کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تو سینیٹ میں بھی اپوزیشن نے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کے لئے واک آئوٹ کر دیا ہے۔ حکومت نے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دلانے کی بڑی کوشش کر رہی ہے لیکن اپوزیشن حکومت کی وضاحتوں کو تسلیم نہیں کر رہی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے تاحال خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا ۔ وہ اس سلسلے میں حکومت کی لیگل ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں اس بات کا قوی امکان ہے کہ بالآخر حکومت اپوزیشن کے دبائو میں آکر سپیکر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ میاں شہباز شریف کی پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی میں آمد کے بعد پارلیمنٹ ہائوس میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈر کا چیمبر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس منعقد ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے مطالبات تسلیم نہ کرنے پر پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے فیصلہ کیا ہے اور میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن لیڈر کو دلانے کے لئے دبائو بڑھانے کی حکمت عملی تیار کی اور واضح کیا کہ اگر مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں
اپوزیشن کاروائی نہیں چلنے دے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں 6 ارکان پر مشتمل ورکنگ گروپ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو قومی اسمبلی کے ایوان میں روز مرہ کی بنیاد پر لائحہ عمل تیار کرے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کے اجلاس میں انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے ٹی او آرز بنانے میں حکومت کی طرف سے لیت و لعل کا سخت نوٹس لیا گیا ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 225 کی آڑ لے کر انتخابی دھاندلیوں سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے اختتام کے بعد میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی۔ سپیکر اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کئے گئے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا کہ اگر حکومت نے میثاق جمہوریت کو نظر انداز کر کے پبلک اکائونٹس کمیٹی بنائی تو اپوزیشن کسی کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے کسی لیڈر کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کی پیشکش کی گئی لیکن اس ایشو پر اپوزیشن منقسم نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ،ایم ایم اے اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے حکومت کو یہ پیغام دیا کہ’’ اگر حکومت میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنا دے تو مسلم لیگ ن کے دور کی آڈٹ پیراز کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کا کوئی رکن خصوصی کمیٹی کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے ۔ میاں شہباز شریف جنھیں چوتھی بار پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے سے مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کی’’ منسٹرز انکلیو‘‘ میں اپوزیشن لیڈر کی رہائش گاہ جسے سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے، میں ’’ ون آن ون‘‘ اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں دونوں رہنمائوں نے ملکی سیاسی صورتحال ، جماعتی امور اور نیب کی ’’چیرہ دستیوں‘‘ پر تبادلہ خیال کیا۔ میاں شہباز شریف سے ان کے اہل خانہ کی بھی ملاقات کرا دی گئی ہے میاں نواز شریف جن کی احتساب عدالت میں 150 سے زائد پیشیاں ہو چکی ہیں‘ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ اپارٹمنٹس مقدمات کا 24 دسمبر 2018 کو فیصلہ کرنے کو حکم جاری کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے کہا ہے کہ نواز شریف جلد جیل میں ہوں گے پی اے سی کے معاملہ میں مسلم لیگ(ن) نے حکومت کو بلیک میل کیا ہے ۔ احتساب عدالت کا کیا فیصلہ آتا ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اس فیصلے کے قومی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ پوری پاکستانی قوم کی نظریں احتساب عدالت کی سماعت کے بعد دیئے جانے والے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔ البتہ سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کی منظوری کے خلاف اپیل بھی زیر سماعت ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت کے باہر پیشی کے دوران صحافیوں نے گھیر لیا اور سوال کیا کہ’’ آپ کا ہنسنا بہت کم ہوگیا ہے اور آپ کھل کر بات بھی نہیں کرتے‘‘جس پر نواز شریف نے صحافی کو برجستہ جواب دیا ‘‘ہنسنا کیسا؟ ہم تو کھل کر رو بھی نہ سکے‘‘۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری برطانیہ کے 8 روزہ دورے کے بعد واپس آ گئے ہیں، وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نے اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے جہاں اپوزیشن پر حملہ آور ہورہے وہاں انھوں نے مسلم لیگ ن کے ارکان کی تربیت کے بارے میں سوال اٹھا کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے دیا۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’مسلم لیگ ن کے ارکان کی تربیت صحیح طور پر نہیں ہوئی‘‘۔ بعد ازاں اپوزیشن کے احتجاج پر انھیں اپنے الفاظ واپس لینا پڑے ۔ ڈپٹی سپیکر نے ایوان کا ماحول بہتر بنانے کے لئے ان کے قابل اعتراض الفاظ کو کاروائی سے حذف کر دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں کاروائی کے حوالے سے پذیرائی حاصل کرنے کے بعد اپوزیشن پر ضرورت سے زائد برس رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ’’ نواز شریف اور آصف زرداری اپنی زندگی کا آخری الیکشن پہلے ہی لڑچکے ہیں۔ ان کی زندگی میں اب یہ سسپنس ہے کہ انہوں نے اپنی آخری عمر گھر میں گزارنی ہے یا جیل میں ، حزب اختلاف کی دونوں جماعتوںکی اندرونی کوشش ہے کہ ان مقدمات سے کیسے بچنا ہے، قانون سے کیسے بچنا ہے، جو پیسے کمائے ہیں ان کو ٹھکانے کیسے لگانا ہے ان کی سیاست اب یہی کچھ رہ گئی ہے۔ اس لئے وہ ہمارے لئے سیاسی چیلنج نہیں ہیں ‘‘۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا تنازعہ ختم ہونے کے بعد بظاہر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اطراف کے میں’’ عقاب ‘‘ مفاہمت کے ماحول کو تہس نہس کر دیں گے۔ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق رائے کیا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے ۔ اپوزیشن نے حمزہ شہباز کو آف لوڈ کرنے کی مذمت کی ہے اور اسے سراسر زیادتی اور سویلین ڈکٹیٹر شپ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران کو تو نیب نے گرفتار کرلیا ہے لیکن مالم جبہ کیس میں ابھی تک کسی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ حکومت میں بیٹھے افراد جن کے خلاف نیب کے مقدمات ہیں۔
ان میں سے کسی گرفتار نہیں کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں مجالس قائمہ قائم ہونے کے بعد قانون سازی کا عمل تیز تر ہونے کا امکان ہے۔ اب تک قومی اسمبلی سے صرف دو ہی بل منظور ہو سکے ہیں۔ دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ وہ اپوزیشن کو بھی ایجی ٹیشن کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں تا ہم انھیں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں ’’گرینڈ الائنس‘‘ کا بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔ اسی طرح سینیٹ میں حکومت اقلیت میں ہے۔ جہاں حکومت کے لئے اپوزیشن کی مدد کے بغیر کوئی بل منظور کرانا ناممکن ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ سر ’’نیچا‘‘ کر کے اپوزیشن کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی سعی کرے سیاست کرنے سے گریز کرے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024