خطرے کی گھنٹی
کساد بازاری آئندہ برسوں میں بڑھنے جا رہی ہے۔ خطرے کی یہ گھنٹی پاکستان کے وزیر خزانہ نے نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ لپٹن نے بجائی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ٹپکتی چھت اس وقت ٹھیک کر لینی چاہیئے جب سورج چمک رہا ہو۔ میں بھی دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح طوفان کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں لیکن ابھی تک بچائو کا کام پورا نہیں ہوا ہے۔ 2008ء کے جیسی ایک اور کساد بازاری آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب عالمی رہنمائوں کے پاس ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے محدود راستے بچے ہیں جیسے ایک عشرہ پہلے برسوں کے خسارے کے اخراجات اور بڑھتے ہوئے قومی قرضوں کی وجہ سے بچے تھے۔ اس بار ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیئے کہ ہماری حکومتیں معاشی بحران میں اس طرح ردعمل ظاہر کریں گی جس طرح انہوں نے 10 سال پہلے ظاہر کیا تھا اور کارپورٹس بیل آئوٹ پیکیجز دیئے تھے تاکہ عظیم کساد بازاری کے اثرات کم پڑیں۔آئی ایم ایف کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی سرمائے کی مینجمنٹ کمپنی بلیک راک نے بھی عالمی سرمایہ کاری سے متعلق اپنی رپورٹ میں یہ عندیہ دیا ہے کہ 2019ء میں دنیا کساد بازاری میں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ آئندہ برس عالمی معیشت میں 19 فیصد کمی کی توقع ظاہر کی گئی ہے جبکہ کمپنی نے 2020ء میں 38 فیصد کمی کی پیشگوئی کی ہے جو 2021ء میں بڑھ کر 54 فیصد تک ہو جائے گی۔ بلیک راک نے اپنے کلائنٹس کو اپنے پورٹفولیوکو ری بیلنس کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس وقت دنیا میں دو تین اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے اثرات عالمی معیشت پر پڑنے جا رہے ہیں۔ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوگاکیونکہ چین جب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا رکن بنا تھا تو تب اس کی معیشت 1 ٹریلین ڈالر کی تھی جو آج 13 ٹریلین ڈالر کی ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں تجارتی تعلقات ہونے کے باوجود چینی برآمدات کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہی ہے جس کا عالمی معیشت کا 25 فیصد حصہ ہے۔ اگر امریکہ میں 2008ء سے بڑی کساد بازاری آتی ہے یا امریکہ کی چین سے تجارتی جنگ میں شدت پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر دوسرے ملکوں کی تجارتی و معاشی سرگرمیوں پر بھی پڑے گا۔ اس وقت امریکہ شرح سود میں اضافہ کرکے دنیا بھر سے ڈالر جمع کر سکتا ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ آئندہ دو برس کے دوران امریکہ میں لگایا جانے والا سرمایہ کساد بازاری میں ڈوب جائے، جس کی جانب آئی ایم ایف اور بلیک راک کی طرف سے اشارہ کیا جا چکا ہے۔ادھر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ہے جس سے واضح نظر آ رہا ہے کہ انگلستان کی معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ انگلستان کی معیشت میں 8 فیصد کمی آئے گی۔ جس کے نتیجے میں وہاں کمرشل پراپرٹی کی قیمتیں نصف رہ جائیں گی، بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد ہو جائے گی اور ڈالر کے مقابلے میں برطانوی پائونڈ کی قدر میں 25 فیصد کمی آ جائے گی۔ بریگزٹ کے ممکنہ اثرات سے بچنے کے لیے بہت سے لوگوں نے برطانیہ سے نکل کر آئر لینڈ میں اور مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ بہت سی کمپنیاں بھی برطانیہ سے نکل کر یورپی یونین اور دوسرے انگلش بولنے والے ملکوں کا رخ کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے موقع ہے کہ برطانوی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کچھ سرمایہ کار بھارت کی طرف جائیں لیکن سمجھ دار سرمایہ کاروں کے فیورٹ ممالک کی فہرست میں بھارت شامل نہیں رہا ہے جس کی بنیادی وجوہات میں بدعنوانی اور ریڈ ٹیپ سرفہرست ہیں۔ بھارت کی جانب سے کچھ عرصے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کا جی ڈی پی فرانس کے برابر ہو گیا ہے، یقیناً ایسا ہی ہوگا لیکن کیا فی کس آمدنی بھی فرانس کے برابر ہو گئی ہے؟ تیل کی قیمتوں میں کمی اور یمن کی جنگ کی وجہ سے سعودی معیشت پر برے اثرات پڑے ہیںجبکہ مقامی آبادی میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے اور معاشی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے پروگرام کی وجہ سے غیر ملکی افرادی قوت کے لیے سعودی عرب میں روزگار کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ جو لوگ وہاں سے واپس آئے ہیں وہ خالی شاپنگ مالز اور خالی عمارتوں کے قصے سناتے ہیں۔ یہی حال دبئی کا ہے جہاں نئے ٹیکس لگ جانے کے بعد کاروبار سمٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ ادھر کینیڈا میں کساد بازاری کے امکانات تو ظاہر نہیں کیئے جا رہے ہیں لیکن تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات البرٹا جیسے تیل پیدا کرنے والے صوبوں میں نظر آنے لگے ہیں جہاں روزگار کے امکانات کم ہونے لگے ہیں۔ تاہم کینیڈین سینٹرل بینک کی جانب سے آ ئندہ مہینوں میں شرح سود میں اضافے اور افراط زر پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ادھر یورپ میں اٹلی اور یونان میں معاشی بحران کے بعد اب فرانس میں بھی لوگ میکروں حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پیرس میں شروع ہونے والی پیلی واسکٹ احتجاجی تحریک کو شروع ہوئے چار ہفتے سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن سیکڑوں افراد کی گرفتاری کے باوجود اس احتجاجی تحریک کا دائرہ فرانس کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ تحریک کی بنیادی وجہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت بتائی گئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرانس اور خاص طور پر پیرس کے لوگوں میں گزشتہ دو عشروں سے عدم اطمینان بڑھتا جا رہا تھا۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ فرانس کی حکومت اپنے شہریوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنے یورپی ایجنڈا کو آگے بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔ کہا ہے جا رہا ہے کہ پیلی واسکٹ تحریک کے لوگ پیٹرول کی قیمتوں، شرح سود میں اضافے، کارپوریٹ سیکٹر اور دولت مندوں کو مراعات دینے اور عام شہریوں پر ٹیکسوں کے بوجھ اور مہنگائی میں اضافے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ فرانسیسی شہریوں کا شکوہ ہے کہ اپنے بلز ادا کرنے کے بعد ان کی جیب میں کچھ نہیں بچتا۔ جس کی وجہ سے اپنے روزمرہ اخراجات بھی پورے کرنا مشکل ہو گئے ہیں جبکہ پیرس میں اسٹریٹ کرائمزکی شرح اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو سڑکوں پر چلتے ہوئے خوف آنے لگا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ متوسط طبقہ تیزی سے غربت کے منہ میں جا رہا ہے بڑے اسٹورز کی وجہ سے چھوٹی دکانیں اور کاروبار بند ہونا شروع ہوگئے ہیں جبکہ مراعات یافتہ طبقات کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ عام شہریوں کا اپنے سیاسی رہنمائوں سے واجبی سا تعلق بھی ختم ہو گیا ہے وہ سیاسی قائدین کو ٹیلیوژن پر باتیں کرتا ہوا سنتے ضرور ہیں لیکن انہیں ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ ادھر امریکہ اور روس میں میزائل سسٹمز اور امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے الزامات کے بعد کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپی اقوام اپنے ملکوں کو دوبارہ میدان جنگ بنانے یا نئی سرد جنگ کا حصہ بننے سے انکار کرتی نظر آ رہی ہیں تاہم روس کی جانب سے نیٹو افواج کی اس کی سرحدوں کے نزدیک بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے کئی مواقع ہیں لیکن اس کے لیے پاکستانی منصوبہ سازوں کو روایتی سوچ سے ہٹ کر کام کرنا ہوں گے۔ اگر سیاسی قیادت پاکستانی افرادی قوت کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو عالمی کساد بازاری میں بھی پاکستان کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقوام عالم کی معاشی طاقت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ آج زیادہ برآمدات کرنے والی اقوام خوشحال ہیں۔ تاہم ممکنہ کساد بازاری اور بڑی طاقتوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث برآمدات کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں برآمدات بڑھانے کے لیے کرنسی کی قدر میں کمی کرنے کی پالیسی سے شاید زیادہ فوائد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ عالمی کساد بازاری کے دور میں داخلی پیداوار یا داخلی کاروبار بڑھانے کے لیے بڑے پروجیکٹس پر توجہ دینا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کساد بازاری کتنی بھی شدید ہو لیکن زراعت کے شعبے میں شرح نمو برقرار رہتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن زرعی اور ڈیری کے شعبے اور اس سے وابستہ صنعتوں یا دیگر بنیادی ضرورت کی اشیاء بنانے والی صنعتوں کو جدید خطوط پر منظم کرنے اور ترقی دینے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں لگتا ہے کہ جو لوگ آج مرغی، انڈے اور کٹّے کے گوشت کا مذاق اڑا رہے ہیں، کل ان میں سے بہت سے لوگ یہی چیزیں برآمد کر رہے ہوں گے۔