تجاوزات کی مہم اور قانون کی حکمرانی
یہ ایک اچھی بات ہے کہ تجاوزات کے خلاف مہم ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کامیابی سے جاری ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں اس سلسلے میں خاصا کام ہو چکا ہے۔ گو کہ اس معاملے میں مخالفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر تجاوزات کو ہٹانے کی مہم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے لاقانونیت خاص کر قبضہ مافیہ کا صفایا ہورہا ہے۔تو دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بہت ہی کم آمدنی والے افراد کو اس کے ذریعے بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔شاید ہی کوئی اس بات کی حمایت کرے کہ غریب آدمی سے اس کا روزگار چھین لیا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ کے اس لائق تحسین فیصلے پر عمل کیا جائے تو ان لوگوں کے لیئے متبادل روزگار کا پلان موجود ہو جو کہ بہت ہی کم آمدنی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس پلان پر فوری طورپر عملدرآمد بھی کیا جائے لیکن اگر کوئی ریاست یا حکومت اس بات پرسات عشروں کے بعد متفق ہوگئی ہے کہ قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم کی جائے تو پھر اس میں یہ گنجائش کیسے نکالی جائے گی کہ قبضہ مافیاکا راج ہو اور غریب ان کے آلہ کار بنا کر استعمال کیئے جائیں۔ اصل میں اس مہم کا اصلی ٹارگٹ وہ طاقت ور افراد تھے جنہوں نے قانون کی دھجیاں بکھیر کر عوام کے ٹیکسوں سے قائم کی گئی سڑکوں ،فٹپاتوں ، بازاروں ، حد یہ کہ اسکولوں ، دفتروں ، پارکوں اور پلوں تک پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان لوگوں کا طریقہ کار یہ رہا کہ یہ معصوم اور بے روزگار افراد کو گورنمنٹ کی زمین پر لا کر بسا تے اور وہاں کام شروع کر دیتے۔اس کے بعد بھتہ اور ناجائز کرایہ وصول کرنے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیتے۔ لاہور اور کراچی کے بڑے بڑے بزاروں پر کیا کسی غریب آدمی کی ہمت ہو سکتی ہے کہ وہ سڑکوں اور فٹپاتوں پر تجاوزات کر سکے۔ اس کے پیچھے وہ طاقت ور خفیہ ہاتھ ہوتے ہیں جن کے آگے مضبوط سے مضبوط حکمران اور ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ان افراد نے باقاعدہ اپنی ذاتی فورسسز قائم کی ہوئی ہیں جو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بھتے وصول کرتی ہیں۔ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ یہ حکومت کے بڑے سے بڑے ادارے سے اپنا کام نکالنے میں کامیاب رہے۔ اسی غیر قانونی گٹھ جوڑ نے بڑے چھوٹے شہر میں وہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ اب فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ بازاروں میں ایک دکان جائز جبکہ اس کے سامنے 4 ناجائز دکانیں بنی ہوئی ہیں جہاں چلنے پھرنے تک کی جگہ میسر نہیں۔ ان کی وجہ سے صفائی ستھرائی کے نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیںجبکہ شہر کے شہر کچرا کونڈیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ٹریفک کا نظام تباہ ہے حد یہ ہے کہ لوگ پیدل چلنے بھی عاجز ہوچکے ہیںکیونکہ نہ وہ سڑک پر چل سکتے ہیں نہ فٹ پاتھ پر‘ ناجائز کاروبار کرنے والوں نے ان کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں کباب اور برگر کی دکان قائم ہے جبکہ سامنے کی تمام سڑک اور فٹ پاتھ پر کرسیوں اور شاندار گائو تکیوں سے آراستہ تخت لگے ہوئے ہیں۔ کیا اسی کو غریبوں کا کاروبار کہا جارہا ہے ؟۔ کیا اسی قسم کے کاروبار کی حفاظت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟۔ اگر اعلیٰ عدلیہ نے ایک عرصے کے بعد ایک بہت ہی نیک اور اچھے کام کا آغاز کیا ہے تو اس کے خلاف ان لوگوں کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت ہے جو قانون شکنی کو اپنا وطیرہ بنا چکے ہیں۔ ہم پھر یہ بات زور دے کر کہیں گے کہ غریب آدمی اور کم آمدنی والے افراد کیلئے متبادل روزگار کی جگہ حکومت کی ذمہ داری ہے اس کے ساتھ معاشرے کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے لیکن یہ بھی ہر شہری کا فرض ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب کہ وہ لاقانونیت کو کاروبار کے نام پر فروغ دینے کی ہر کوشش کو ناکام بنائے۔ آخر یہ شہر اور دیہات ،سڑکیں ،اور بازار ،فٹ پاتھ اور پارک دفاتر اور اسکول کس کے ہیں ؟۔ کیا یہ عوام کے لیئے نہیں بنے ؟۔ کیا ایک عام آدمی ان سے سہولتیں نہیں اٹھاتا ؟۔ کیا فٹپاتھوں پر صرف امیر لوگ یا ان کے بچے چلتے ہیں ؟۔ کیا بازاروں میں کم آمدنی والے لوگ نہیں جاتے ؟۔ اگر ان کی شکل بگاڑ دی جائے ،ان کو تباہ کردیا جائے ، بھتہ خوروں اور قبضہ مافیا کا ان پر راج ہوجائے تو نقصان کس کا ہوگا ؟۔ عوام کا یا حکومت کا!۔صرف ایک سال قبل کراچی شہر گندگی کے ڈھیروں اور کچرے کے پہاڑوں کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ حکومت اور عوام دونوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ آخر کار کیوں کر ایسا ممکن ہوا اور کس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ؟۔ جہاں حکومتیں نااہل رہیں ، ادارے کرپٹ ،وہیں پر شہریوں نے بھی شہر کو کبھی اپنا نہ سمجھا اس کو صرف ایک کھانے کمانے کی جگہ کے طور پر استعمال کیا۔ اسی لیئے نوبت اس بدترین شکل پہ آپہنچی ہے کہ شہر کا کوئی کوناایسا نہیں جہاں پر ناجائز تجاوزات کے جنگل نہ بنتے جارہے ہیں۔ اس کی ایک اور مثال ٹریفک کا نظام ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے قائم کی گئی سرکلر ریلوے ریل کی پٹری پر ناجائز تعمیرات کے وہ سلسلے بنائے گئے ہیں کہ یہ پہچانا بھی مشکل لگتا ہے کہ یہاں کبھی ٹرین بھی چلتی تھی یا نہیں۔ریلوے کی زمین حکومت کی نہیں دراصل عوام کی زمین ہے جو لوگوں کے ٹیکسوں سے بنائی گئی تھی جس سے ایک عام آدمی کو بہتر اور سستے سفر کی سہولت مل رہی تھی۔ کیا یہ تحقیق کرنا ضروری نہیں کہ آخری کس نے یہ سارے نظام کو تباہ کرکے کراچی کے عام آدمی کو ٹریفک کی بدترین تکلیف سے دوچار کیا ہے۔ پورا شہر گاڑیوں ، رکشوں ، اور ویگنوں کا ہجوم بن چکا ہے‘ ٹریفک جام رہتا ہے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ذرا سی بارش ہوجائے تو لوگ ساری ساری رات سڑکوں پر گزارتے ہیں۔ کیا یہ سارے کارنامے سرکلر ریلوے کو تباہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئے ؟۔ چند ہزار افراد کو ناجائز زمین پر گھر تو فراہم کردیئے گئے لیکن 2 کروڑ افرد کو ٹریفک کی بدترین صورتحال سے دوچار کردیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ 40 برسوں سے جاری ہے۔ شہر کی آبادی میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ اندرون ملک سے بھی لوگ منی پاکستان میں آکر بس رہے ہیں لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کہ آخر ان سب کو شہری سہولتیں کیسے فراہم کی جائیں گی۔ ان کو کاروبار کرنے اور وہاں تک جانے کی سہولت کیسے فراہم کی جائے گی۔ اب اگر اعلیٰ عدلیہ نے عوام کی بہتری ، عوام کے حقوق کے تحفظ اور عوام کے مستقبل کیلئے ‘ شہر کی بقاء کیلئے ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کا ایک اچھا فیصلہ کیا ہے تو اسے متنازعہ بنانے کے بجائے سب کو مل کر اس پر بہترین طریقے سے عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے جو متاثر ہوئے ہیں ان کے روزگار اور دیگر معاملات میں مدد کی جانی چاہیئے تاکہ سارے کام قانون کے دائرے میں رہ کر طے ہو سکیں۔