انتہاپسندانہ سوچ کو شکست
بھارت میں حالیہ انتخابات نے آئندہ بننے والی حکومت کی راہ ہموار کردی۔ ریاستی انتخابات نے نریندر مودی حکومت کیلئے آئندہ برس کے عام انتخابات سے قبل خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ پاکستان اور مسلمان دشمنی کی آخری حدیں عبور کر چکی ‘مودی حکومت اب ان نتائج کو آئینے کے طور پر دیکھ لے یا نوشتہ دیوار سمجھ کر پڑھ لے۔ راہول گاندھی کی نوجوان قیادت میں کانگریس ایک مرتبہ پھر بھارت پر راج کرتی نظر آرہی ہے اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ بھارتی ریاستوں کے عوام نے مودی کا انتہا پسندی کا ایجنڈا مسترد کردیا ہے۔2013 کے انتخابات میں بی جے پی نے 165 سیٹیں حاصل کی تھیں اور کانگریس کے حصے میں 13 سیٹیں آئی تھیں تاہم اس بار بی جے پی نے بدترین شکست کھائی ہے۔ اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ اقلیتوں کے تحفظ کا پرچار کرنے والا بھارت جنوبی ایشیا کا وہ ملک ہے جہاں اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر وستم اور تشدد کی انتہا ہو چکی ہے۔ سانحہ گجرات و بابری مسجد اور مقبوضہ وادی میں آزادی کا حق مانگنے والوں کے خلاف ریاستی ظلم و تشدد کی انتہا ہو چکی ہے۔ حالیہ انتخابات میں نا صرف مسلم بلکہ تمام اقلیتوں نے بھی مودی حکومت کی انتہا پسندی کو یکسر مسترد کردیا۔ ریاستی انتخابات کے نتائج سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کو پاکستان مخالف موقف سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا جبکہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے مودی حکومت کو محض دھوکہ نصیب ہوا۔ حالیہ نتائج اس کی پالیسیوں سے اظہار نفرت قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کے اچھے دن گئے یعنی مودی حکومت کے برے دن ان انتخابات کی روشنی میں آتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ خواتین کے مساویانہ حقوق کے تعلق سے بھی مودی حکومت کے رویئے پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔ بھارت میں ہر اقلیت ہی بری طرح اکثریت کے ہاتھوں مصائب کا شکار ہے۔ مودی حکومت کا دور انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے تاریخ کا بدترین دور کہلائے گا۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک کے حوالے سے پاکستان اپنے دوٹوک موقف پر قائم ہے۔ چھتیس گڑھ ،راجستھان اورمدھیہ پردیش میں کانگریس جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ انڈیا کے ہندی بولنے والے رحجان ساز علاقے کا حصہ ہیں جہاں بی جے پی کو 205 میں سے 203 پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ بھارت نے مودی کے بدلے جو راہول گاندھی کو انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس تبدیلی سے بھارتی ہٹ دھرمی میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آئے گا۔ امکان یہی ہے کہ بھارت کانگریس کی حکومت کا نقاب پہن کر پاکستان کی طرف اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کریگا۔ ہندو انتہاپسندی کو فروغ دینے کے لئے مودی نے وزیر اعظم کی کرسی سنبھالی اور اس حقیقت کو اب نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت میں حالیہ انتخابات میں دراصل انتہا پسندانہ سوچ کو شکست ہوئی ہے اور اب بی جے پی کا وہ حال ہوگا جو کبھی کانگریس کا ہوا تھا۔ اہم امر یہ ہے کہ بھارت میں ہندو مسلم کا تضاد نہیں بلکہ مختلف مذاہب و ثقافتوں کے درمیان تضادات پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔ بھارت نے انتہاپسندی کے حوالے سے اپنا مکروہ چہرہ جمہوریت اور سیکولرازم کی چادر سے چھپانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم حالیہ انتخابات میں لوگوں کے فیصلے نے یہ چادر پوری طاقت سے کھینچ لی ہے۔ بھارت نے خطے میں امن و استحکام کو ترجیح دینے کی بجائے ٹھیکیدار بننے کو ترجیح دی بھارت کا دوسرا اسرائیل بننے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ حکومت مجموعی طور پر ہر محاذ پر ناکام رہی۔ بھارتی میڈیا بھی ان دنوں کانگریس کی کامیابی اور بی جے پی کی شکست کو اہمیت دے رہا ہے اور مودی حکومت کی بدترین کارکردگی کو شکست کی اہم وجہ قرار دے رہا ہے۔ مودی حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے اور حالیہ انتخابی نتائج پارلیمانی انتخابات میں اثرانداز ہونگے۔