بیچارہ رمیش کمار
رمیش کمار بیچارہ سمجھ رہا ہوگا کہ جب وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل پیش کرے گا تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے۔ممبران اسمبلی اسے گلے لگائیں گے اور کندھوں پر بٹھائیں گے اور پلک جھپکتے یہ بل تمام مراحل سے گزر کر قانون بن جائے گا اور تاریخ کی کتابوں میں لکھا جائے گا کہ ایک ہندو اقلیتی ممبر اسمبلی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب پر پابندی کا قانون دستور میں شامل کرایا۔اگر آپ کو علم نہیں تو اس دلچسپ داستان کو ضرور سنیئے۔ پچھلے دنوں تحریک انصاف کے اقلیتی ممبر قومی اسمبلی رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے۔اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مذہب کے نام پر شراب نوشی کی اجازت دی گئی ہے جب کہ کوئی بھی مذہب چاہے اسلام یا عیسائیت یا ہندو شراب نوشی کی اجازت نہیں دیتا اور اسے معاشرے کے لئے تباہ کن قرار دیتا ہے اس لئے شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے اور جو اجازت نامے اس مکروہ فعل کے لئے جاری کیئے گئے ہیں انہیں منسوخ کیا جائے۔ اس کے جواب میں ممبران اسمبلی کا رد عمل بالکل غیر متوقع تھا۔سب نے یک زبان ہوکر اسے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی ماسوائے ایم ایم اے کے چند ارکان نے اورتو اور خود رمیش کمار کی پارٹی یعنی تحریک انصاف نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور پھریہ کہ بعد میں جب وزیر اطلاعات فواد چودھری سے پوچھا گیا تو انہوں نے اسے رمیش کمار کی شہرت حاصل کرنے کی ایک سستی چال قرار دے دیا۔سچ بات تو یہ ہے کہ بیچارہ رمیش کمار وزیر اعظم عمران خان کے ریاست مدینہ کے نعرے سے یہ سمجھ بیٹھا کہ وہ واقعی سنجیدگی کے ساتھ اس قسم کی ریاست کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں اور اس نے اپنی طرف سے اس کار خیر میں ہاتھ بٹانا چاہا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ ہوسکتا تھا کہ رمیش کمار بھرے ایوان میں اس شرمندگی سے بچ جاتا اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتا اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتا کہ پاکستان کی تاریخ میں نعرے اور عمل کبھی ایک دوسرے کی تفسیر نہ ہوسکے۔ پیپلز پارٹی نے بھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا جسے اس وقت کے سیاست داں رمیش کمار کی طرح سنجیدگی سے لے بیٹھے اور بیشتر کا رمیش کمار جیسا انجام ہوا۔ اس وقت کے رمیش کمار معراج محمد خان۔جے اے رحیم وغیرہ نے جب پارٹی کے نعرے کو عملی شکل دینے کی کوشش کی تو ان کا انجام تو رمیش کمار سے بھی زیادہ سنگین ہوا اور انکے ساتھ وہ سلوک ہوا جو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ رمیش کمار کو تو خان صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ انہوں نے بس بل کوفیل ہی کروایا ہے ان کے ساتھ کوئی ایسا ناروا سلوک نہیں کیا جو جے اے رحیم کے ساتھ کیا گیا تھا۔اس واقع سے تحریک انصاف کے باقی رہنمائوں اور کارکنوں کو بھی واضح پیغام چلا گیا کہ پارٹی کے منشور کو صحیفہ آسمانی سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ جو کچھ کہا گیا وہ انتخابات جیتنے کے لئے تھا اس پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ویسے رمیش کمار کی قومی اسمبلی میں جگ ہنسائی اور مرے کو سو درے مارنے کے مترادف وزیر اطلاعات کا بیان صاف ظاہر کررہا ہے کہ پارٹی کے اندر نظریاتی کارکنوں اور رہنمائوں کی گنجائش ذرا کم ہوتی جارہی ہے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کا رحجان باقی سب جذبات پر غالب آچکا ہے۔جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی بازگشت چند دن کے بعد جمعے کی نماز کے خطبوں میں بھی سنائی دی۔ کلفٹن میںایک مشہور مسجد کے امام نے اس معاملے پر ممبران قومی اسمبلی کے رویئے پر سخت تنقید کی اور رمیش کمار کی کوششوں کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی اس بل کو پاس کرے کیونکہ شراب نوشی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے۔ بات تو بالکل صیح ہے۔ہمیں ۰۷ کی دہائی میں شراب نوشی پر پابندی سے پہلے کا زمانہ یاد ہے کیونکہ اس وقت شراب ہر جگہ ملتی تھی اور سستی بھی تھی تو عام لوگ بھی اس لعنت میں مبتلا تھے۔جگہ جگہ موجود شراب خانے بھرے رہتے تھے اور تو اور غریب لوگ اپنی محنت مزدوری کی کمائی اس خرافات پرخرچ کرتے اور عادت سے مجبورہوکر اپنے بیوی بچوں کی ضروریات سے صرف نظر کرکے اپنے نشے کی پیاس بجھاتے تھے۔ نہ جانے کتنے گھرانے ‘ خاندان کے سربراہ کی اس موذی عادت کی وجہ سے برباد ہوگئے۔ پابندی کے ابتدائی دنوں میں تو اس پر سختی سے عمل کیا گیا اور پھر شراب نوشی امیر گھرانوں کی بیٹھکوں اور غیر ملکی سفارت خانوں کے قومی دنوں تک محدود ہوگئی۔ عام آدمی کے لئے خاص طور پر یہ موضوع گفتگو نہ رہی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ غریب علاقوں میں چند مفاد پرستوں اور لالچی لوگوں نے کچی شراب بنانا شروع کردی جس سے کئی بار متعدد افراد اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے چرس عام ہوئی اور شراب پر پابندی ہٹانے کے لئے اسے بھی ایک دلیل کے طور پر پیش کیاجاتا ہے کہ اگر شراب کھول دی جائے تو شاید چرس کا کاروبار ماند پڑجائے۔ یہ سب مفروضے ہیں۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ شراب کو اس پر پابندی کے بعد معاشرے میں وہ اہمیت اور مرکزیت حاصل نہیں رہی جو اس سے پہلے تھی اور ہمارا معاشرہ کسی درجے اس لعنت سے پاک ہوگیا۔ میں تو کبھی سوچتا ہوں کہ اگر کراچی میں جس لاقانونیت کا راج ہے اور جو اس سے بھی ذیادہ اس سے پہلے رہ چکا ہے اگراس میں شراب نوشی کی بھی آمیزش ہوتی تو قیامت ہی آجاتی۔ اسی طرح ہم سب جانتے ہیں کہ سالہاسال کی ٹریفک پولیس کی نا اہلی کے باعث شہریوں میں ٹریفک قوانین کے احترام کی عدم موجودگی اور بھی خوفناک شکل اختیار کر لیتی اگر رات کو شہر کی سڑکوں پر شراب خانوں سے گھر جاتے ہوئے شراب کے نشے میں دھت ڈرائیور حضرات بھی شامل ہوجاتے یا منی بس کا ڈرائیور بیچ روڈ پر گاڑی کھڑی کرکے بھاگ کر کونے کے شراب خانے سے ایک چسکی لگا کر مسافروں سے بھری بس لے کر پھر فراٹے بھرنے لگتا۔ جو لوگ اس پابندی کو ہٹانا چاہتے ہیں انہیں سوچنا چاہیئے کہ وہ کس مصیبت کو دعوت دینا چاہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ہمارے شہر اور ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ اس لعنت سے محفوظ ہے اور رمیش کمار کا بل اس میں مزید پیش رفت کی طرف ایک اہم قدم ہے۔رمیش کمار کو یہ بل پیش کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اصل میں جو لوگ اس قبیح فعل میں ملوث ہیں انہوں نے پہلے تو اقلیتوں کے نام پر پرمٹ حاصل کیئے۔ یہ پرمٹ بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہزاروں کا نہیں کروڑوںکا کھیل ہے اور اسی لئے ہم محکمہ ایکسائز کی وزارت کے لئے طاقتور حلقوں کے درمیان تگ و دو دیکھتے ہیں۔جسے یہ وزارت مل جاتی ہے بس سمجھو کہ لاٹری کھل گئی اور آپ سب جہاندیدہ لوگ ہیں آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ کیوں۔ پہلے تو اس پر کچھ قوائد اور ضوابط کا خیال رکھا جاتا تھا اور اس محکمہ کی جانب سے جاری کیئے گئے لائسنس کی تمام ضروریات پوری کی جاتی تھیں جیسے خریدنے والے کا شناختی کارڈ دیکھنا اور اس بات کا اطمینان کرنا کہ وہ واقعی مسلمان نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ یہ سب تکلفات بالائے طاق رکھ دیئے گئے اور اب یہ عالم ہے کہ جو آئے سو پائے کی بنیاد پر کوئی بھی آتے جاتے جس قسم کی جس شراب کا خواہشمند ہے پاسکتا ہے بس اس کی قوت خرید اس کی خواہشات کا ساتھ دے سکے۔رمیش کمار نے یہ سب بدلنے کی کوشش کی۔ اس غیر مسلم ممبر اسمبلی نے ریاست مدینہ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی مگر جب وہ خود اعتمادی کے ساتھ اسمبلی میں کھڑا ہوا اور وہ قراردار پیش کرنے کی کوشش کی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ کم سے کم اس کی پارٹی اور ریاست مدینہ کے متوالے اس کا ساتھ دیں گے تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو تن تنہا ہے۔یہ ر میش کمار کے بل کی شکست اور قول فعل کے تضاد کی سیاست کی فتح ہے۔ تبدیلی کے منتظر اب کسی اور مسیحا کا انتظار کریں ۔