سات ماہ قبل تعمیر ہونے والے اسلام آباد ائیر پورٹ کی کارگو بلڈنگ بیٹھنے لگی
آج تک الیکشن میں اُمیدواروں کا ایک دوسرے کے حق میں بیٹھ جانے کا تو سب سنتے رہے ہیں۔مگر اسلام آباد ائیر پورٹ کی کارگو بلڈنگ کا بیٹھ جانا وہ بھی جدید ترین نئی نویلی عمارت کا خاصہ تعجب خیز ہے۔ کنواں کھودتے ہوئے کنویں کا بیٹھ جانا، کمزور دیواروں والی چھت کا بیٹھ جانا بھی قابل برداشت ہو سکتا ہے۔ مگر اسلام آباد ائیر پورٹ کی یہ عمارت تو ابھی چند ماہ پہلے ہی مکمل ہوئی ہے۔ کیا سابقہ حکومت کے من پسند ٹھیکیداروں نے یہ عمارت نمک کی بنیادوں پر قائم کی تھی کہ آہستہ آہستہ گھلنے لگی ہے۔ اس عمارت پر اربوں روپے لاگت آئی ہے۔ اگر ابھی سے اس کا یہ حال ہے تو اس کی تعمیر پر آنے والی لاگت ان ٹھیکیداروں اور ٹھیکہ دینے والوں سے وصول کی جائے ، جنہوں نے خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے ایسی ناقص عمارت تعمیر کی۔ غضب تو یہ ہے کہ جب ایسے لوگوں سے حساب کتاب طلب کیا جائے تو یہ سب ظلم ، ناانصافی اور انتقام کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ اپنی پاکدامنی کی دہائی دیتے ہیں۔ اگر یہ سب گنگا نہائے ہوئے ہیں تو پھر یہ عمارت کیا۔ اپنے ہی گناہوں کے بوجھ سے دبنے لگی ہے۔ اب اطلاعات کے مطابق تحقیقات کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔سب جانتے ہیں ایسی کمیٹیوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ بہتر ہے اس کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں اور ٹھیکہ دینے والوں کو لا کر اسی عمارت میں قید کر دیا جائے تاکہ جب یہ عمارت زمین دوز ہو تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی سپرد خاک ہوں اور دوسروں کے لئے عبرت کاسامان بنیں…
٭٭٭٭٭٭
تعلیمی معیار گرنے پر افسوس ہے سکول سے رومانس کبھی ختم نہیں ہوتا۔ صدر عارف علوی
صدر مملکت عارف علوی اس حساب سے قدرے عوامی صدر محسوس ہوتے ہیں کہ وہ سرکاری تقریبات میں بھی اپنا عوامی انداز نہیں بدلتے ۔ جھوٹی یا عارضی شان شوکت بالآخر ختم ہو جاتی ہے مگر انسان کا عوامی رنگ کبھی اس سے جُدا نہیں ہوتا۔ گزشتہ روز بھی ایک تقریب میں انہوں نے جس طرح سکول کے حوالے گفتگو کی سکول کی اہمیت بیان کرتے ہوئے تعلیمی معیار کے گرنے کا دکھڑا سُنایا وہ ایک خوبصورت حقیقت ہے۔ ایک حقیقت پسند انسان ہی کسی مسئلہ کوصحیح طور پر اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حل کے لئے بھی کوشاں رہتا ہے۔ دعا ہے صدر مملکت بھی تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں۔ صرف مار نہیں پیار سے نظام تعلیم اور معیار تعلیم میں بہتری نہیں آئے گی۔ اس کام کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ محبت کے ساتھ سختی بھی بہت ضروری ہے۔ اسی لئے صدر مملکت نے بھی اس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی بہت شرارتی تھے۔ استاد کی مار کے باعث وہ کامیاب طالب علم بنے۔ اس وقت صدرمملکت کے اپنے صوبے سندھ میں تعلیم کی جو حالت ہے وہ ان سے ڈھکی چھپی نہیں ہو گی۔ غنڈہ گردی ، نقل اور میرٹ سے ہٹ کر اساتذہ کی بھرتی نے سارا نظام تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس میدان میں اگر کوئی اور صوبہ سندھ سے ٹکر لے سکتا ہے وہ بلوچستان ہے جہاں کا نظام تعلیم اور معیار تعلیم سندھ سے کہیں زیادہ نہیں تو کم از کم اس کی طرح تباہ ہو چکا ہے۔ انگلش اور حساب کو تو چھوڑیں اگر ان صوبوں میں قومی زبان کے حوالے سے اُردو کا ہی آزمائشی امتحان لیا جائے تو طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بڑی تعداد بھی سڑکوں پر امتحانی نتائج کیخلاف احتجاج کرتی نظر آئے گی…
گردوارہ کرتارپور کے بدلے پاکستان کو زمین دینے کی بھارتی پنجاب اسمبلی میں قرارداد منظور
خواب دیکھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ بھارتی پنجاب اسمبلی کے ارکان نے جو خواب دیکھا ہے وہ سب دن میں خواب دیکھنے کے عادی لگتے ہیں۔ مگر دنیا جانتی ہے دن کے خواب سچے نہیں ہوتے۔ ویسے ہی جیسے جاگتی کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھنے والے شیخ چلی کے خواب مشہور و معروف ہیں جو کبھی حقیقت میں نہ ڈھل سکے۔ رہی بات بھارتی پنجاب اسمبلی کرتار پور کے بدلے پاکستان کو بھارتی زمین دینے کی پیشکش تو یہ باسی کڑی میں ابال والی بات ہے۔ ایسی تجویز پہلے بھی آئی تھی مگر اپنی موت آپ مر گئی۔ ہاں اگر پنجاب اسمبلی کرتاپور کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کی قرارداد منظور کرتی تو شاید پاکستان بھی اس پر غور کرتا کیونکہ اس صورت میں یہ سودا مہنگا نہیں تھا۔ یا اگر پنجاب اسمبلی پٹھانکوٹ ، گورداسپور اور فیروز پور اضلاع جو 1947ء میں غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے کاٹ کر بھارت کے حوالے کر دئیے تھے پاکستان کے حوالے کرنے کی بات کرے تو اس پر غور ہو سکتا ہے ورنہ صرف چند مربع میل کی اراضی کے بدلے کرتاپور تو کیا ایک انچ کا ٹکڑا بھی بھارت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے تو پھر بھی بنا ویزے کے سکھوں کو یہاں آنے کی فراخدلانہ اجازت دی ہے۔ کیا بھارت میں ہمت ہے کہ وہ ایسی ہی کوئی پیشکش کشمیر میں تقسیم شدہ خاندانوں کو کشمیریوں کو آنے جانے کے لئے دے۔ اگر ایسا نہیں تو بھلا کرتاپور کیوں پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭
عابد شیر علی نے فیصل واڈوا کی لندن میں دوسری پراپرٹی کی نشاندہی کر دی۔ لیگی رہنما پاگل ہے۔ وفاقی وزیر
آج کل میڈیا پر عابد شیر علی کی طرف سے لندن میں دوران سیروسیاحت وفاقی وزیر فیصل واڈوا کی دو جائیدادوں کا سراغ لگانے کی جاسوس کہانی زوردار طریقے سے چل رہی ہے۔ عابد شیر کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں پائونڈ قیمتی یہ جائیدادیں وفاقی وزیر کی ہیں۔ جو کل تک موٹر سائیکل پر پھرتا تھا آج ارب پتی کیسے بن گیا۔ جبکہ فیصل واڈوا کہہ رہے ہیں کہ موصوف نشے کی حالت میں کھڑے کبھی کسی اور کبھی کسی عمارت کو میری قرار دے رہے ہیں خطرہ ہے کہیں بکنگھم پیلس کو بھی میری پراپرٹی قرار نہ دے دیں۔ میں ان کا علاج کرائوں گا۔ اب خدا جانے یہ علاج کرانا کن معنوں میں ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں ایسی باتیں کرنے والوں کا جو علاج ہوتاہے۔ وہ سب جانتے ہیں۔ واڈوا جی پہلے ہی کراچی میں چینی سفارتخانے پر حملے کے دوران جیمز بانڈ بننے کے چکر میں متنازع بحث میں الجھ چکے ہیں۔ انہیں محتاط رہنا چاہئے۔
اب اراضی یا پراپرٹی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک ہو یا اندرون ملک اس کا حساب سب کو دینا چاہئے خواہ وہ کسی بھی جماعت کا ہو۔ اس لئے سپریم کورٹ نے افضل کھوکھر اور سیف الملوک کیس میں بجا کہا ہے کہ قبضہ گروپ ازخود یتیموں اور بیوائوں کی پراپرٹی پر قبضہ چھوڑ دیں ورنہ قانون خود فیصلہ کرے گا۔ اس کے باوجود لگتا نہیں ملک اوربیرون ملک غیر قانونی جائیدادیں بنانے والے ا ور یتیموں ا ور بیوائوں کی املاک پر قبضہ کرنے والے ازخود یہ جائیدادیں واگزار کر دیں۔ کیونکہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی…
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024