پاکستان کی معیشت ہر پاکستانی کے لیے پریشانی کا سبب بن گئی ہے کیونکہ ہر پاکستانی شہری بالواسطہ یا براہ راست متاثر ہوگا خاص طور پر کم آمدنی والا طبقہ معاشی صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی معیشت مختلف فورمز پر عالمی سطح پر زیر بحث چلی آرہی ہے۔ ارجنٹائن کی قومی اسمبلی کے سپیکر نے جنیوا میں انٹرنیشنل پارلیمنٹرین یونین کے اجلاس میں پاکستانی معیشت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ معلوم نہیں پاکستان اس صورت حال سے کیسے نکلے گا۔ ہماری خراب معاشی صورت حال پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر منفی تاثر پیدا کررہی ہے۔
ہمارے ہاں یہ رحجان بن گیا ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو خراب معاشی صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتی ہے اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مالیاتی ادارے مثلاً سٹاک ایکسچینج اور سٹیٹ بنک سیاست زدہ ہوگئے ہیں ان کے فیصلے سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں ملک کی سیاسی سماجی اور مالیاتی صورت حال پوری معیشت کو ڈانواں ڈول کر دیتی ہے ۔ بدعنوانی معاشی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے احتساب کے ادارے حکومت وقت کی منشاء کے مطابق چلتے ہیں یہ ادارے احتساب اور سیاسی انتقام کی باریک لائن کو عبور کرلیتے ہیں جس کا نتیجہ پریشان کن ہوتا ہے ۔ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اعلی رکن رہا ہوں اور وزیرداخلہ بھی رہا ہوں مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچا ہٹ بھی نہیںکہ گورنر سٹیٹ بنک‘ ڈی جی ‘ ایف آئی اے چیئرمین نیب اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کی توثیق پارلیمنٹ سے کرائی جانی چاہیے ۔ سول سرونٹس کو آئینی تحفظ بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بغیر دباؤ پر میرٹ پر فیصلے کرسکیں ۔ آئینی عہدے دار اور بیوروکریٹس قومی معیشت کو آگے لے کر جاسکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بے پناہ بوجھ ہے ہماری معیشت ان قرضوں کے بوجھ کے نیچے ڈوب رہی ہے۔ موجودہ حکومت معاشی حالات خود مختصرکررہی ہے بلکہ وہ معیشت کو دوبارہ ٹریک پر ڈالنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کررہی آپ معیشت کو درست بھی کرسکتے مگر خود اس کے بارے میں منفی تاثر پھیلا رہے ہیں ۔
روپے کی قدر میں اچانک کمی سے پوری قوم پریشان ہے۔ روپے کی قدرمیں کمی سے معیشت کو دھچکا لگا ہے۔ لوگوں کو اس بات سے بھی بڑا صدمہ پہنچا ہے کہ وزیراعظم خود اعتراف کررہے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ روپے کی قدر کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے روپے کی قدر میں کمی کی خبر ٹی وی پر سنی۔ بطور سابق وزیر داخلہ میرے لیے اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب ملک کا معاشی نظام اور انٹیلی جنس سسٹم دونوں منہدم ہوگئے ہوں اور وزیراعظم کو خبر بھی نہ ہوسکے کہ روپے کی قدر میں کمی آگئی ہے قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ کس کے حکم پر روپے کی قدر میں اس حد تک کمی کی گئی ہے۔ جس اتھارٹی نے یہ کیا ہے۔ کیا اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود تھا؟
ایک اور سوال جس کا حکومت نے جواب دینا ہے کیا روپے کی قدر میں اس حد تک کمی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان کسی خفیہ مفاہمت کا نتیجہ تو نہیں ہے۔کیا اس ڈیل کو لوگوں سے مخفی رکھا ہے عام آدمی میں تاثر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر روپے کی قدر میں مزید کمی بھی کی جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان پر اپنی کڑی شرائط مسلط کررہا ہے ۔ عموماً آئی ایم ایف ‘کرنسی کی قیمت میں کمی‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی شرائط پاکستان پرلگاتا چلا آرہا ہے ۔ ان معاشی جھٹکوں سے سٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہورہا ہے لیکن حکومت نے صورت حال کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ لگتا ہے کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک شرط تھی۔ روپے کی قدر کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق طے کرنے کی شرط سے لگتا ہے یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے اس صورتحال سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوگی۔ معاشی ترقی کی شرح کم ہوگی ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔ اندازہ یہ لگایا جارہا ہے کہ ڈالر کی حیثیت اعلی ترین سطح پر پہنچ جائے گی اگر اسی طرح روپے کی قدر میں کمی واقع ہوتی رہے گی۔ اس صورت حال سے پوری قوم ایک پریشانی میں مبتلا ہے۔
سٹیٹ بنک ان حالات میں زیادہ نوٹ چھاپنے پر مجبور ہوگا جس سے روپے کی قدر اور بھی گھٹ جائے گی اس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ مہنگائی میںاضافہ ہوگا اور عام آدمی مصائب کا شکار ہوگا۔ ان حالات میں حکومت کو مقامی کاروبار کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو ایک سطح پر رکھنا ناممکن ہوگا ۔ توقع ہے کہ حکومت دانش مندی کا مظاہرہ کرے گی درآمدات کو بڑھانے کی کوشش کی جائے گی غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے حکومت کو قرضوں کی واپسی کا پروگرام دینا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی اگلی قسط کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ 3 ارب ڈالر کے سکوک بانڈز کا بھی قرض ہمارے اوپر پہلے سے ہے۔ اس وقت معیشت کا گروتھ ریٹ 548 ہے۔ اس میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبہ کی پیداوار بڑھانے اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ٹیکسٹائل کا شعبہ قریباً منجمد ہوگیا ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ہمارے کپڑے کی مانگ کم ہورہی ہے ان حالات میں ہماری معیشت کو ایک قوت بخش نسخے کی ضرورت ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024