پوری دنیا میں زیادہ تر کھیلوں کیلئے کئی کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیمیں ہوتی ہیں جو اپنے کپتان کے ماتحت کھیلتی ہیں۔فٹ بال ،ہاکی اورکرکٹ میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں جو مخصوص جگہوں پر کھیلتے ہیں اوربعض اوقات انکی پوزیشن تبدیل بھی ہوجاتی ہے جسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ تبدیل ہونے والا پلیئر کھیلنے کے قابل نہیں رہا۔وزیراعظم عمران خان ماضی میں کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اورکامیاب کپتان رہے ہیں۔ اوراپنے دورمیں وہ یقینا حالات اورپرفارمنس دیکھ کر ٹیم ممبر کی سلیکشن اورپوزیشن کاتعین کرتے ہونگے کہ وہ کہاں زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومتی معاملات کوچلانا اگرچہ کرکٹ میچ سے یکسر مختلف ہے مگر کسی بھی وزیر کی شہرت یاکارکردگی خراب ہویاوزارتی اموراسکے قابو میں نہ آرہے ہوں۔ تو اس کو تبدیل کرنا نہ صرف حکومت بلکہ ملکی مفاد کیلئے بھی ضروری ہوجاتاہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی سوروزہ کارکردگی اگرچہ تسلی بخش ہے مگرچند وزارتوں کے حوالے سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔وزیرخزانہ اسد عمر ایک قابل اورمتحرک وزیرہیں جنکی شرافت ،دیانت اورحب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیاجاسکتا لیکن انکی وزارت کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں اورشاید اسکے ذمہ دارانکی معاشی ٹیم کے وہ اعلیٰ سرکاری افسران ہوں جو ماضی کی حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پرفائز رہے ہیں۔ اورہماری معاشی بدحالی میں انکا کردار اہم رہاہے۔یہ درست ہے کہ سابق وزیرخزانہ نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرکے بڑھنے سے روکاہواتھا مگر نئی حکومت کے وزیرخزانہ کو چاہیے تھا کہ سابق حکومت کو کوسنے کے ساتھ خالی خزانہ بھرنے کے اسباب بھی کرتے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی ابھی تک شدید دبائو میں ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کاسیلاب امڈآیاہے مگر حکومت کی اس معاملے میں توجہ اوررفتاربہت کم ہے۔ وزارت خزانہ نے ملک کے خالی خزانے کو بھرنے کیلئے اب تک جو بھی اقدامات کئے ہیں انکا بوجھ براہ راست عوام اورکاروباری طبقے پر پڑاہے نتیجے کے طورپر نئی سرمایہ کاری تقریباً رک گئی ہے،کاروباری سرگرمیاں مانندپڑ گئی ہیں ،صنعتی یونٹ بند ہورہے ہیں جسکے نتیجے میں بیروزگاری میں مزید اضافہ ہورہاہے ،ریونیو اورٹیکس کے نظام میں بہتری اورایف بی آرکی ازسرنوتشکیل کیلئے نت نئے تجربے کئے جارہے ہیں ،ٹیکس فائل کرنیوالے اورٹیکس نہ اداکرنیوالے برابر خوف میں مبتلاہیں۔اس وقت ضرورت اس امرکی ہے۔ کہ ایک دوسال تک عوام خصوصاً کاروباری لوگوں کو ریلیف سیلف ایمنسٹی سکیم کے تحت دیاجائے اورایک سلیب ریٹ رکھ کر ای فائلنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ٹیکس رٹیرن فائل ہونا شروع ہوجائیں۔
اس وقت حکومت کو گیس کی کامیابی کے بحران کا سامنا بھی ہے۔ ملک میں تیل وگیس کابحران کوئی نیا نہیں، گذشتہ ادوار میں جو معاہدے ہوئے انکے کمیشن اورکک بیکس سے بعض لوگ کئی نسلوں تک فیض یاب ہو نگے یہ الگ بات کہ غریب عوام کے چولہے سرد رہیں گے اورانکے بچے بھوک سے بلکتے رہیں گے۔تیل وگیس کے نئے ذخائر کی تلاش ملک کی معاشی ترقی کیلئے اشد ضروری ہے مگر اسکے لئے وسائل اوروقت چاہیے ،اس وقت وزارت پٹرولیم کو چاہیے کہ عوام کی طلب کونظر میں رکھتے ہوئے گیس کی بلاتعطل سپلائی کویقینی بنائے تاکہ ملک کی انڈسٹری متاثر نہ ہو ،سوئی سدرن اورسوئی نادرن کمپنیوں کومورد الزام ٹھہرا کر وزارت پٹرولیم بری از زمہ نہیں ہوسکتی۔انرجی وپاور کے وفاقی وزیرعمر ایوب خان خاموشی سے کام کرنے کے قائل ہیں۔ اورایک نسبتاً بہتر ٹیم کیساتھ وزارت چلارہے ہیں۔گردشی قرضے ،مہنگے ترین بجلی منصوبے،بجلی چوری اوربجلی کا فرسودہ ترسیلی نظام انکے بڑے ٹارگٹ ہیں ،بجلی کاشارٹ فال ختم کرنے کیلئے ماضی میں متعدد پاورجنریشن پلانٹس لگائے گئے ہیں جن میں سے کچھ منصوبے سی پیک کے تحت لگائے گئے ،مگر سولر ،کوئلے اورتیل سے لگائے گئے منصوبے انتہائی مہنگے داموں لگائے گئے ہیں جس کی ایک مثال قائد اعظم سولر منصوبہ ہے جسکا ٹیرف غالباً دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔قائداعظم سولر پارک اوراس جیسے دوسرے مہنگے ترین پاور جنریشن منصوبوں کامالی بوجھ براہ راست عوام کوبرداشت کرنا پڑرہاہے۔ہائیڈو یعنی پانی سے بجلی پیداکرنے والے منصوبوں کی لاگت شروع میں زیادہ ہوتی ہے مگر ان منصوبوں سے پیداہونی والی بجلی بہت کم قیمت پر سسٹم میں شامل ہوتی ہے ،حال ہی میں نیلم ،جہلم پاورپراجیکٹ کئی سالوں کی تاخیر اورلاگت میں ہوشربا اضافے کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچاہے۔ جبکہ بھارت اس دوران کئی ڈیم تعمیر کرچکاہے،اب چیف جسٹس آف پاکستان نے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈریزنگ مہم شروع کی ہے جس پر کام بہت پہلے زوروشورسے شروع کردیاجاناچاہیے تھا۔وزیراعظم عمران خان انتھک ،دیانت دار اوروطن سے محبت رکھنے والے انسان ہیں جو چاہتے ہیں کہ آئندہ نسلوں کامستقبل محفوظ ہواوردنیا بھر میں پاکستانی سراٹھاکر اپنی شناخت بتانے میں فخرمحسوس کریں۔کرپشن کا خاتمہ،غریب عوام کو ملازمت اورگھر کی چھت مہیا کرنا،لوگوں کامعیار زندگی بلند کرنا انکی ترجیحات میں شامل ہے۔ اوراگر اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ سال اقتدار میں رہنے کاموقعہ دیا تو وہ یقینا ملک کوترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑاکرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024