وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پھر کہا ہے۔ عوامی حسابات کی چھان پھٹک (پبلک اکاؤنٹس) کمیٹی کا چیئرمین شہبازشریف کو بنانا ایسے ہی ہے کہ دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھایا دیا جائے، لیکن دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیں کہ جمہوریت اور اس کی پارلیمانی اقدار کی بحالی کیلئے اسے ’’مثبت یوٹرن‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی آئینی اور پارلیمانی لحاظ سے بہت ہی خاص اہمیت رکھتی ہے‘ اسے وزرا، وفاقی سیکرٹریوں، وزارتوں ، محکموں، ان کے سربراہان و افسران کو طلب کرنے اور جواب دہی کرنے کا اختیار ہے۔
یہ کمیٹی حکومت کو پابند کرسکتی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں دی جانے والی اپنی تجاویز پر عمل درآمد کرائے اور حکومت عمل درآمد کی رپورٹ واپس کمیٹی کو پیش کرنے کی ذمہ دار ہے یہ کمیٹی ایسی تجاویز اور ہدایات بھی حکومت کو جاری کرسکتی ہے جس میں بتایا جائے گا کہ وہ مختلف شعبہ جات اور امور میں اپنی حکمرانی کو کیسے بہتر بنائے اور کیا اقدامات کرے جس سے اس کی کارکردگی بہتر ہو۔ سردار ایاز صادق کا پی ٹی آئی اور عمران خان سے تعلق پرانا ہے۔ انہوں نے عمران خان کے فیصلے کو ’مثبت یوٹرن‘ قرار دیا ہے۔ تجزیہ کاری کے میدان میں حکومت کے حامی اور ناقدین بھی پھٹ پڑے ہیں اور کچھ کے نزدیک یہ عمران خان کا ہمیشہ کی طرح پیچھے ہٹ جانے والا ایک اور یوٹرن ہے جبکہ بعض کے خیال میں یہ اچھا اقدام ہے اور مثبت یوٹرن ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کہہ رہے ہیں کہ ’’حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر غلط فیصلہ کیاہے۔پی اے سی کا چیئرمین بننے کے باوجود اپوزیشن ایوان نہیں چلنے دے گی۔‘‘
فواد چوہدری نے حکومتی پالیسی سے اختلافات کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی اے سی کا منصب اپوزیشن کو دینا منطقی طور پر درست نہیں۔
میں نے وزیر اعظم سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے، حکمراں جماعت میں جمہوریت پوری طرح بروئے کار ہے اور ہر رہنما اپنی رائے برملا بیاں کرسکتا ہے۔دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتا چکے ہیں۔ شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنانے کا گرین سگنل مل چکا ہے۔ ان کی رائے میں:
’’وفاقی حکومت یہ معاملہ اپوزیشن لیڈر پر چھوڑتی ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں اور اگر وہ خود بھی چیئرمین بننا چاہیں تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘انہوں نے مزید فرمایا ’’ہم نے قائدِ حزبِ اختلاف کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے کسی بھی شخص کو پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں لیکن اگر آپ خود چیئرمین بننا چاہتے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔ جمہوریت کی بقا کی خاطر اور اس ایوان کو فعال رکھنے کے لیے ہم آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔‘‘ دوسری جانب وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا استدلال ہے کہ ’’بڑے بھائی کی لوٹ مار کے آڈٹ پر چھوٹے بھائی کو چیئرمین پی اے سی بنانا منطقی طور پر غلط ہے۔‘‘
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اسپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن کے بغیرقائمہ کمیٹیاں بنانے کی ہمت کرنی چاہئے کیونکہ اپوزیشن نے اس فیصلے کے باوجود ایوان چلنے نہیں دینا، ہر روز ایک نیا بہانہ لے کر آئے گی۔‘‘اگر عمران خان صاحب کا ذہن پی اے سی کی تشکیل بارے واضح نہیں تھا تو جہاں اتنے دن گزرے اور گزرجاتے وہ مزید مشاورت کرلیتے۔
دوسری جانب ایسے دانشور اور تجزیہ کار بھی ہیں جو قرار دے رہے ہیں کہ حکومت نے اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی بنانے پر رضامند ہوکر مثبت پیش رفت کی ہے۔ ایسے افراد کی رائے میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے دوستوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا بھی سیاسی قبیلے سے تعلق ہے اور ن لیگ بھی تمام تر قومی جرائم کے باوجود سیاست سے تعلق رکھتی ہے جب یہ لوگ آپس میں ٹکرائیں گے تو نقصان دونوں کا ہی ہو گا، تاریخ کا سبق یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرح تحریک انصاف کو بھی ن لیگ کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا پینا چاہئے۔احتساب کی چکی کے پاٹ ابھی چلناشروع نہیں ہوئے اور چیخیں نئی دہلی تک سنائی دے رہی ہیں۔ وزیراطلاعات سمیت دیگر افراد دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اپوزیشن کے خلاف کوئی مقدمات بنائے اور نہ ہی احتساب کرنے والی ٹیم کا کوئی ایک بھی فرد انہوں نے تعینات کیا ہے جس پر حزب مخالف والے شعر پڑھتے ہیں …؎
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیدھا راستہ بھی بنانا ہوتو اس پر بھی کچھ ایسا جنتر منتر چلتا ہے کہ دنیا میں جو موٹروے بالکل سیدھی تعمیر ہوتی ہے ہمارے ہاں وہ بھی آڑھی ترچھی ہوجاتی ہے۔ ہمارے پاس یہ کہنے کے بجز اور کچھ نہیں بچتا کہ یہ کہانی تاریخ میں بیان ہو گی، لوگ جان سکیں گے کہ اصل صورتحال کیا تھی؟ وجوہات کیا تھیں؟ آج کی تاریخ میں یہ کہانی بیان نہیں ہو سکتی۔ وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین صرف اپوزیشن کو ہی نشانہ نہیں بنائے ہوئے، ان کا زور کلام میڈیاکی طرف بھی ہے۔ ان کی اس رائے پر بھی شدید تقسیم ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ لوٹ مار اگر میڈیا اور صحافیوں نے بھی کی ہے تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ چوہدری فواد حسین پر تنقید ہورہی ہے کہ پتا نہیں وہ کس خوش فہمی یاغلط فہمی میں ہیں؟ اور میڈیا کے ساتھ مسلسل مَتھا لگا رکھا ہے۔ انہیں سنجیدگی سے معاملات پر غور کرنا چاہیے۔ میڈیا کے اشتہارات کوئی بھیک نہیں اور یہ کہ اشتہارات اخبارات کا آئینی حق ہیں، میڈیا، حکومت اور دیگر اداروں اور افراد کو اربوں روپے کی مفت کوریج فراہم کرتا ہے۔ عوامی سرمائے کی لوٹ مار پر تنگ آئے افراد بجنگ آمد کی طرز پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ ’’بابا جی! سرکاری اشتہارات پرائیویٹ میڈیا کا آئینی حق کیسے ہوا؟پوری دنیا میں چینل پرائیویٹ اشتہاروں پر چلتے ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی صحافیوں کو ہی یہ مزے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
ایسے جملے بھی سننے کو مل رہے ہیں کہ ’’الحمداللہ ! شکر ہے مسٹر کرپٹ نے یہ نہیں کہا میڈیا کو اشتہار دینا عین حلال عبادت ہے‘‘ پہلے میڈیا پر ’’لفافوں‘‘ کا الزام لگاکرتا تھا اب ’’پٹرول پمپوں‘‘ کی بات ہوتی ہے اور اس پر الفاظ اور طعنوں کے جو تازیانے برس رہے ہیں اس پر خود کو صحافی لکھتے ہوئے بھی اب شرم آتی ہے کہ لوٹ مار کرنے والے حکمران اگر بْرے ہیں توان کی مدح سرائی کرکے پٹرول پمپ اور دیگر آسائشیں سمیٹنے والے بھی اعانت جرم کے سزاوار ہیں۔
واپسی پر پرویز خٹک صاحب نے بتایا کہ ’’ن لیگ کے منصوبوں کا آڈٹ ذیلی کمیٹی کرے گی، جس کی چئیرمین شپ تحریک انصاف کے پاس ہو گی۔‘‘ مسلم لیگ (ن) کا بھی یہی موقف ہے کہ شہبازشریف نے پہلے روز ہی کہہ دیاتھا کہ وہ اپنی پارٹی کی حکومت سے متعلق آڈٹ پیراز پر اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔
کچھ لوگ اس فیصلے سے اس قدر مایوس ہوئے ہیں کہ ’وَن یونٹ‘ کی باتیں شروع کردی ہیں۔ دل جلے اس اقدام کو کرپٹ لوگوں کی جیت پر بھی محمول کررہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ جو کرپٹ کو لگائے وہ خود بھی کرپٹ ہی قرار پائے۔
کچھ زہر میں بجھا یہ تیر چلاتے ہیں کہ ’’اب پی اے سی کا اجلاس پارلیمینٹ کی بجائے اڈیالہ جیل میں ہوا کرے گا۔ یہی تو ہے وہ تبدیلی حضور!!!۔۔۔یہ ملک صرف امیر لوگوں کا ہے غریبوں کا کوئی کام نہیں اس ملک میں‘‘پی اے سی چیرمین نیب چیرمین کو طلب کر سکتا ہے۔اتنی طاقت ایک ملزم کو دینا پی ٹی آئی حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔ اس کی کوئی بھی تاویل کی جائے غلط ہے یہ کون سی جمہوریت ہے؟؟
میاں نوازشریف کے بارے میں ایک ‘‘غیرتمند پختون’’برخوردار رسیدیں لے کر آگئے اور مریم میڈیا سے داد پاتے رہے اب پتہ چل رہا ہے کہ ’’میاں نوازشریف کاسٹاف چرچل ہوٹل لندن میں ساڑھے4 لاکھ روپے’’پَر نائٹ’’ پر رہائش پزیر رہا۔ 28ہزار ڈالر کرایوں کی مد میں اڑا دئیے گئے۔ 6 ہزارڈالرکے آئی ٹی آلات خریدے گئے۔ 3 ہزار ڈالر ٹیلی فونوں پرخرچ کیا گیا۔ اور تو اور اخباروں کابل 165 ڈالربھی حکومت پاکستان نے ہی ادا کئے۔‘‘پاکستانی قوم کو کہاں کہاں ’’ماموں‘‘ نہیں بنایاگیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ نوازشریف کی ہارٹ سرجری’’ان کے ذاتی پیسوں‘‘ سے ہوئی ہے لیکن اب انکشاف سامنے آیا ہے کہ ڈیڑھ ماہ کی لندن یاترا سرکارکے خرچ پرتھی۔
قوم کوپونے8کروڑ کی ’’پَھکی‘‘ دی گئی۔ صرف طیارہ پارکنگ پر57 ہزار ڈالر ادا کئے گئے۔ چرچل ہوٹل کا بل 1 لاکھ 73ہزار ڈالر ادا ہو۔ بہتی گنگا میں سٹاف الاؤنس کے 30 ہزار ڈالر اور کھانا بل 28 ہزارڈالربھی شامل کرلیں۔ پی آئی خصوصی فلائیٹ کا صرف ساڑھے3کروڑ تو کون سا خرچ ہے؟
پی ٹی آئی کی حکومت کی آمد کے بعد سے تین ماہ میں قومی اسمبلی میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ کوئی پارلیمانی قائمہ کمیٹی بھی تشکیل نہیں پا سکی۔ قائد حزب اختلاف کو چیئرمین پبلک اکاو نٹس کمیٹی بنانے کی روایت میثاق جمہوریت کے تحت ڈالی گئی تھی۔ حکومت کے روئیے میں تبدیلی کی ایک وجہ معاشی مجبوریاں بتائی گئی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں کچھ نئے قوانین پر بات ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے تقاضوں کے مطابق کچھ قانون سازی مستقبل میں کرنا ہو گی جس پر شاید اپوزیشن آمادہ نہ ہو۔ یہ حکومت کے لئے ایک اور امتحان ہوگا۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024