سقُوطِ ڈھاکہ کو کل (16 دسمبر کو ) 45 سال بِیت گئے ۔ اُس سے پہلے جنوری 1970ءمیں مجھے دورہ¿ مشرقی پاکستان کا موقع مِلا۔یکم جنوری 1970ءکو مَیں نے تیسری مرتبہ جناب مصطفےٰ صادق ( مرحوم) اور برادرم جمیل اطہر قاضی کا رونامہ ” وفاق“ لاہور جائن کِیا ۔ اُنہوں نے مجھے مرکزی جمعیت عُلماءاسلام کے قائد مولانا احتشام اُلحق تھانوی کا دورہ¿ مشرقی پاکستان "Cover" کرنے کے لئے ڈھاکہ بھجوا دِیا۔ مصطفےٰ صادق صاحب اور برادرم جمیل اطہر قاضی مجھے لاہور ائر پورٹ پر چھوڑنے گئے ۔ مصطفےٰ صادق صاحب نے مجھے ڈھاکہ ائر پورٹ سے شہر کے مرکز میں پنجابیوں کے راجا ہوٹل کا راستہ سمجھا دِیا ۔
رات کے اڑھائی بجے پی آئی اے کا طیارہ ڈھاکہ ائر پورٹ پر اُترا۔ مَیں باہر آیا ۔ صِرف چار ٹیکسیاں تھیں ۔ اُن پر امریکی خواتین و حضرات قابض ہوگئے اور مَیں سکوٹر رکشہ پر ۔ بنگالی رکشہ ڈرائیور نے رکشہ (مصطفےٰ صادق صاحب کے بتائے ہُوئے راستہ کے بجائے ) غلط راستے پر موڑا۔ مَیں نے ٹوکا ۔ اُس نے کہا کہ ”سیدھے راستے میں ڈاکو کھڑے ہیں “۔ مَیں نے کہا کہ ”گھبراﺅ مت! میرے پاس پستول ہے“۔ ”رکشہ ڈرائیور نے گھبرا کر کہا ”باپ رے پستول!“ پھر اُس نے رکشہ سیدھے راستے پر چلایا“۔ مَیں درود شریف پڑھتا رہا ۔ رکشہ راجا ہوٹل پر جارکا۔ ہوٹل کے ملازم نے میرا سامان اُتار لِیا۔ مَیں نے رکشہ والے کو روک لِیا ۔ ہوٹل کا مالک جہلم ( پنجاب) کا راجا تھا ۔ مَیں نے اُسے بتایا۔ راجا صاحب نے ہوٹل کے تہہ خانے میں اپنے ملازموں سے رکشہ ڈرائیور کی ٹھکائی کروائی۔
اگلی صبح مَیں مولانا احتشام اُلحق تھانوی صاحب سے مِلا۔ اُن کے پاس کئی مولوی صاحبان بیٹھے تھے ۔ مولانا کوثر نیازی کی شکل و صُورت والے مولانا اَمین اُلا اسلام نے مجھے کہا کہ ” مولانا تھانوی صاحب کے ساتھ ہم لوگ ہوائی جہاز پر کومیلا جائیں گے۔ آپ کو ہمارا آدمی بس پر لے جائے گا“۔ مَیں نے مولانا تھانوی صاحب سے کہا ”مولانا صاحب! مَیں روزنامہ ” وفاق“ کا سینئر ترین رکن ہُوں۔ اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو آپ ہوائی جہاز پر مجھے اپنے ساتھ لے جائیں اور مولانا امین اُلاسلام کو بس پر بھجوا دیں ورنہ میرے پاس لاہور واپسی کا ائر ٹکٹ ہے“۔ مولانا صاحب مجھے بھی اپنے ساتھ ہوائی جہاز پر کومیلا لے گئے۔
مَیں نے ڈھاکہ ، کومیلا، نواکھلی، چٹا گانگ اور کئی دوسرے شہروں میں مولانا تھانوی صاحب کو عام جلسوں سے خطاب کرتے سُنا تو مَیں اُن کی علمی قابلیت اور خُوش الحانی سے بہت مُتاثر ہُوا۔ وہ اپنی تقریر کے دوران بر موقع اُستاد شاعروں کا کلام بھی ترنم سے پڑھ کر میلہ لُوٹ لِیا کرتے تھے ۔ پاکستان میں غریبوں کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہُوئے یہ شعر پڑھا کرتے تھے
” سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسِینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی ، شباب کے بدلے“
اپنی متحارب جماعت ( مولانا مفتی محمود کی قیادت میں ) جمعیت عُلماءاسلام ( ہزاروی گروپ) کی ” بھٹو نواز پالیسی“ پر کہا کرتے تھے کہ”سوشلزم کے علمبردار ذوالفقار علی بھٹو کی صُحبت سے مولانا مفتی محمود اور اُن کے ساتھیوں کو نقصان ہو ا ہے “ ۔ وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے
” ہُوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو ، صُحبت زاغ“
میری فرمائش پر مولانا صاحب نے مجھے خُوش خط اردو لِکھنے والا بنگالی نوجوان میرے معاون کے طور پر عطاءکِیا ۔ مَیں مولانا صاحب کی تقریر کی خبر بنا دیتا تو بنگالی نوجوان مرکزی جمعیت عُلماءاسلام کے "Letter Head" پر ناظم نشر و اشاعت کی مہر لگا کر بذریعہ پی آئی اے کارگو مغربی پاکستان کے اہم اخبارات کو بھجوا دیتا۔ تیسرے دِن مولانا تھانوی کی تقریر شَہ سرخیوں کے ساتھ چھپنے لگی تو وہ میرے گروِیدہ ہوگئے اور مجھے اپنی نجی محفلوں میں بھی شریک کرنے لگے ۔ اپنی تقریر کے بارے میں میری رائے بھی لینے لگے ۔ مَیں بے لاگ تبصرہ کرتا تو بھی خوش ہوتے۔
مَیں نے اپنے دورہ¿ مشرقی پاکستان کے دوران مسلم لیگی لیڈر جناب نُور اُلامین سے انٹرویو کِیا۔ وہ انٹرویو ” وفاق“ کے حوالے سے ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا ۔ ”وفاق “ میں مفتی اعظم مولانا محمد شفیع ، نظامِ اسلامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل مولوی فرید احمد ، امیر جماعتِ اسلامی مشرقی پاکستان مولانا غلام اعظم خان اور دوسرے کئی بنگالی لیڈروں کے انٹرویوز بھی شائع ہُوئے۔ مَیں نے ٹیلیفون کِیا تو شیخ مجیب اُلرحمن نے مجھے دھان منڈی ڈھاکہ میں اپنے گھر بلالیا۔ مَیں مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو عوامی لیگ کے ایک عہدیدار نے مجھے چائے پلا کر ٹرخا دِیا اور کہا کہ ” شیخ صاحب گھر پر نہیں ہے ۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب آئے گا“۔
8جنوری 1970ءکو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعتِ اسلامی کے جلسہ¿ عام کا اعلان تھا ۔ مغربی پاکستان سے مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کے دوسرے قائدین ڈھاکہ پہنچ چکے تھے ۔ عوامی لیگ کے حامیوں نے سارے شہر میں دہشت پھیلا دی تھی۔ گاڑیوں کو جلایا جا رہا تھا اور پلٹن میدان تک جانے والے سارے راستے بند کردئیے گئے تھے۔ مَیں جلسہ گاہ کی پریس گیلری میں پہنچا تو جماعت اسلامی کے مقامی قائدین بنگالی زبان میں تقریریں کررہے تھے۔ وہاں مجھے مغربی پاکستان میں فعال / بہاری صحافی محمد بدر منیر مِلے۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ ” آپ میرے ساتھ رہیں “۔ مَیں کوٹ پتلون میں ملبوس تھا اور میرے سر پر کشمیری ٹوپی تھی۔ بدر منیر صاحب نے مجھے کہا کہ ”ٹوپی اُتار دیں“ مَیں نے اُتار دی ۔
مَیں نے دیکھا کہ عوامی لیگ کے مسلح لوگ جلسہ گاہ میں گُھس آئے ۔ اُنہوں نے ہر ٹوپی اور داڑھی والے کو مارنا شروع کردِیا۔ بہت خون خرابہ ہُوا ۔ مَیں بچ بچا کر اپنی قیام گاہ ” روچِیتا “ ہوٹل پہنچ گیا ۔ مَیں نے مولانا محمد اعظم خان کو فون کِیا اور مولانا مودودی سے انٹرویو کی خواہش کی ۔ اُنہوں نے جِیپ بھجوا دی۔ جِیپ فوجی تھی اور ڈرائیور بھی فوجی۔ مَیں مولانا مودودی کی قیام گاہ پر پہنچا تو میری تلاشی لی گئی۔ مولانا صاحب کا چہرہ تمتمایا ہُوا تھا لیکن اُن کے جذبات کنٹرول میں تھے ۔ اُن کے انٹرویو کا خلاصہ یہ تھا کہ ۔ ” یہ لوگ ( عوامی لیگ والے ) پاکستان کو متحد نہیں رکھنا چاہتے ۔ اُن کی مرضی۔ ہم نے تو بہت کوشش کی“۔ روزنامہ ” امروز“ لاہور کے جناب شفقت تنویر مرزا ( مرحوم) اور کافی عرصہ سے واشنگٹن میں مُقِیم سیّد اکمل علیمی نے مجھے ڈھاکہ میں بائیں بازو کے کئی دانشوروں اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے کئی ترقی پسند پروفیسروں کے لئے رقعات / پیغامات دئیے تھے ۔اُنہوں نے میری خوب آﺅ بھگت کی۔
ایک پروفیسر مجھے نیشنل عوامی پارٹی ( چین نواز) کے سربراہ مولانا عبداُلحمید بھاشانی کی ” کسان کانفرنس“ میں شرکت کے لئے"Tangail" لے گئے۔ مَیں نے مولانا صاحب سے مصافحہ کِیا اور اُنہوں نے مجھے گلے لگا لِیا۔ مَیں نے اپنے دورہ¿ مشرقی پاکستان میں کئی دانشووں سے سُنا تھا کہ ”شیخ مجیب اُلرحمن کی مقبولیت کی اصل وجہ غریبوں کے لئے ہمدردی کا "Slogan" ہے“ ۔مَیں نے کئی محفلوں میں سُنا تھا کہ ” مشرقی پاکستان میں مرغی مہنگی اور عورت سستی ہے “۔ مَیں نے 45 سال بعد کل 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ کا ماتم کِیا اور مجبوری میں مرغی سے سستی بنگالی عورتوں کی بے بسی پر بھی جو میرے ہی پاکستان کی ہی بہو بیٹیاں تھیں ؟
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024